بلاگزقومی

پنشن، سرکاری ملازمت کا خاتمہ، "قومی بچت” یا کچھ اور؟

محمد عاصم حفیظ

حکومت آج کل آئی ایم ایف کے زیر اثر سرکاری ملازمین کی پینشن ختم کرنے کے پلان بنا رہی ہے۔ بجٹ میں تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں ۔ ٹیچرز کو احتجاج کے باوجود مستقل نہیں کیا جا رہا۔ کنٹریکٹ پالیسی لائی جا رہی ہے۔ لیکن ایسا ہر ایک کے لئے نہیں۔ دراصل طاقتور محکموں، اداروں نے اپنی تنخواہوں میں ہوشربا اضافہ کرا لیا ہے، ایک ایم ڈی کی تنخواہ 68 لاکھ لگائی گئی ہے۔ بیوروکریسی نے 150 فیصد تنخواہ بڑھائی ہیں۔ ایگزیکٹیو الاؤنس اور یوٹیلیٹی الاؤنس کی مد میں بے پناہ اضافہ اور اب پراجیکٹس پر کام کرنے والے افسران کے لئے ساڑھے تین لاکھ تک کا الاؤنس، پولیس، عدلیہ، نیب، ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں کی تنخواہیں سن کر ہوش اڑ جائیں۔ یہ سب اضافے اور مراعات اسی سال یا گزشتہ سال ہوئے کہ جب باقی شودر ملازمین کو بنیادی تنخواہوں میں معمولی اضافہ بھی نہیں دیا گیا۔

دراصل پالیسی واضح ہے کہ عوامی سہولت کے محکمے یعنی تعلیم، صحت، صفائی، واٹر سپلائی، واپڈا، گیس وغیرہ ختم کر کے پرائیویٹ کر دیئے جائیں، ہسپتالوں کو پرائیویٹ بورڈ کے تحت چلانا، بڑےک الجز کو یونیورسٹی بنا کر خودمختار اور فیسوں میں اضافے کے حوالے سے کافی حد تک اقدامات اٹھا لئے گئے ہیں۔

اب نئے ملازمین کے لئے کنٹریکٹ پالیسی کے تحت پنشن ختم کرنے کا پلان بھی انہی محکموں کے لئے ہو گا۔ یعنی آہستہ آہستہ ان سب صحت و تعلیم کو پرائیویٹ سیکٹر میں دیا جائے گا۔ اور پھر آرام سے عوام کے ٹیکسوں کی کمائی صرف اسمبلی ارکان اور چند طاقتور محکموں کی عیاشیوں کے لیے استعمال ہو گی۔

سوال یہ ہے کہ ریاست جب صحت، تعلیم، مکان، گیس و بجلی جیسی عوامی سہولیات نہیں دے گی، یہ پرائیویٹ سیکٹر سے مہنگے داموں خریدنی پڑیں گیں تو پھر عوام سے ٹیکس وصولی کا جواز کیا رہ جائے گا، سرکار ملازمت نہیں دے گی تو پھر اس کے حکمرانی کا جواز آخر کیا ہے؟ سرکاری ملازمت کیا پڑھے لکھے شہریوں کا حق نہیں؟

عوام کو بنیادی ضروریات کی سرکاری فراہمی دراصل کوئی احسان نہیں ہوتا بلکہ یہ انہی کے ٹیکس سے ہوتا ہے۔ زمین کے وسائل، معدنیات کی کمائی میں سے کچھ عوام کو دینا، ٹول ٹیکس، ہاؤسنگ سوسائٹیز، پانی و دیگر وسائل کے استعمال سے ریاست آمدن کماتی ہے۔

اسی طرح ریاست کی ذمہ داری کمرشل اداروں، امراء سے ٹیکس لے کر معاشرے کے غریب طبقے کو تعلیم، صحت، روزگار دینا ہے۔ اگر یہ نہیں ہو گا تو پھر ریاست کی آخر ذمہ داری رہ کیا جائے گی؟ کیا صرف اور صرف اسمبلیاں چلانا، وزراء و حکام کے خرچے اڑانا، طاقتور محکموں کے افسران و بیوروکریسی کی عیاشیوں کی قیمت ادا کرنا اور اس کے لئے صابن، ٹافی، چپس کے پیکٹ تک میں سے ٹیکس دیں گے، غریب ترین افراد بھی، کیونکہ بڑے مگرمچھ تو اپنا ٹیکس ہی بچا لیتے ہیں، کمپنیاں اور فیکٹریاں سبسٹڈی اور ٹیکس چھوٹ لیتی ہیں۔ ان ڈائریکٹ ٹیکس جو کہ ہر چیز پر سیلز ٹیکس کی مد میں اکٹھا کیا جاتا ہے، پاکستان میں اس کی شرح دنیا بھر میں بلند ترین ہے۔

آگاہ رہیے یہ کوئی "قومی بچت” کا پلان نہیں ہے، پنشن ختم کر کے اور سرکاری ملازمت کے خاتمے سے اگر یہ فنڈز عوام کو ملنے ہوں یا ٹیکس کم کر کے مہنگائی کم کرنی ہو تو کسی کو اعتراض نہ ہو لیکن یہ دراصل عوامی سہولت کے سرکاری محکمے ختم کر کے، چھوٹی سرکاری نوکریاں ختم کر کے، انہیں پرائیویٹ کر کے دیگر محکموں اور طاقتور اداروں کی مراعات میں اضافے کا منصوبہ ہے۔

یہ تعلیم، صحت، واپڈا سوئی گیس میں چھوٹی نوکریوں پر متوسط طبقے کے نوجوان بھرتی ہوتے ہیں دراصل ان کا بندوست کرنا مقصود ہے۔ وہ اب پرائیویٹ نوکریاں کریں۔ صحت، تعلیم، پانی بجلی گیس پرائیویٹ کمپنیوں سے خریدیں، خوب محنت کریں لیکن ٹیکس پورا دیں تاکہ دیگر محکمے عیاشی کر سکیں۔ ان پر حکومت کر سکیں۔ اسمبلیاں چل سکیں اور ان حکمرانوں کی مراعات میں اضافہ ہو سکے۔

ہمارے ہاں بہت سے جوشیلے اس صورت حال کو سمجھتے ہی نہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ جلد از جلد بس سرکاری ملازمت ختم ہو جائے۔ پنشن کے پیسے بچائے جائیں۔ لیکن انہیں احساس ہی نہیں کہ دراصل سرکاری عوامی سہولیات، ملازمت کا خاتمہ ہو رہا ہے جو کہ ٹیکس دینے کے عوض عوام کا حق ہے۔ ان کا بھی حق ہے۔ پرائیویٹ صحت، تعلیم ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا۔

عوامی حلقوں کو چاہیے اس حوالے سے ردعمل دیں کہ سرکاری سہولیات میں اضافہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ ان کے ٹیکس کی رقم ہے کوئی احسان نہیں۔ یہ سب کو ملیں گی کسی خاص کو نہیں۔ جب پچیس روپے فیس والا سرکاری سکول ختم ہوتا ہے تو پھر غریب ترین کے لئے بھی متبادل صرف کم سے کم چھ سات سو والا پرائیویٹ سکول رہ جاتا ہے۔ جب چار ہزار ماہانہ فیس والا کالج یونیورسٹی بنا کر خودمختار بنایا جائے یا پرائیویٹ کر دیا جائے تو پھر چالیس ہزار فی سمسٹر دینا پڑتا ہے یا پھر پرائیویٹ کالجز کے رحم و کرم پر۔ جب پانچ روپے پرچی والا ہسپتال پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلایا جائے تو پھر علاج کرانا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب سرکاری ہاؤسنگ پراجیکٹس ختم کر دیئے جائیں تو پھر پرائیویٹ ہاؤسنگ سکیموں کے ہاتھوں زندگی بھر کی کمائی لٹانا پڑتی ہے اور سہولیات بھی نہیں ملتی ۔ اگر چند سو ماہانہ بل والی سوئی گیس پرائیویٹ کر دی جائے تو پھر ایل پی جی کی طرح فی کلو خرچہ دینا پڑے گا۔ حتی کہ گندم چینی و آٹا اگر پرائیویٹ مافیا کے ہاتھوں دے دیا جائے تو پھر دنوں میں قیمتیں ڈبل ہوتی ہیں۔

مانا کہ سرکاری سہولیات و محکمہ جات میں بہت سے مسائل ہیں۔ انہیں بہتر ہونا چاہیے۔ مانیٹرنگ کا نظام بہتر بنایا جائے۔ سخت گورننس نافذ کی جائے۔ سرکاری ڈیوٹی میں بدعنوانی کرنے والوں کو پکڑا جائے۔ سزائیں ملیں۔ ملازمت ختم کر دی جائے لیکن چند طاقتور محکموں کی عیاشیوں کی آڑ میں عوامی سہولیات کو تو ختم نہ کیا جائے۔

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عدلیہ، فورسز، پولیس، بیوروکریسی، نیب، ایوی ایشن کی پنشن اور مراعات کی طرف دیکھنے کی بھی کوئی جرات کر سکتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ قوم کے لئے صرف انہی محکموں کی ضرورت ہے۔ صحت، تعلیم، گھر و دیگر بنیادی سہولیات کے محکمے فضول ہیں تو اس کی سوچ کو اکیس توپوں کی سلامی۔ چہتے محکموں کو تو وسیع تر قومی مفاد میں بچا لیا جائے گا۔ یہ سارا زور صرف عوامی سہولیات کے محکمے ختم کرنے، پرائیویٹ کرنے یا ان کو محدود کرنے کے متعلق ہے۔

جو اس کی سپورٹ کر رہے ہیں، اس پر جذباتی ہو رہے ہیں انہیں بہت جلد اور آنے والے چند سالوں میں اس کی خوب سمجھ آ جائے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام دراصل ہر چیز کو پرائیویٹ کر کے آپ کی زندگیوں کو پھر پرائیویٹ بنکاری کے شکنجے میں جکڑنے کا نام ہے۔ سرکاری سہولیات کا خاتمہ، پرائیویٹ نظام اور پھر صحت، تعلیم، بنیادی ضروریات کے لیے کریڈٹ کارڈز کے تحت آپ کی زندگی و سانسیں بنکاروں و سرمایہ کاروں کے حوالے۔ یہ زندگی کیسی ہے اس بارے مغرب و یورپ میں رہنے والے کسی اپنے سے پوچھ لیں۔

وہاں تو پھر کچھ اصول و ضوابط موجود ہیں کہ بے روزگاری یا دیگر مشکلات میں حکومت مدد کر دیتی ہے۔ یہاں تو آپ نے ٹیکسوں سے صرف اسمبلی ارکان، افسران اور دیگر طاقتور محکموں کو ہی پالنا ہے۔ غریبوں کو صرف مرنا ہے۔ اب یہ فیصلہ انہیں کرنا ہے کہ سسک سسک کر زندگی میں مرنا ہے یا یکدم "سکون ” قبر میں تلاش کرنا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button