بلاگزلائف سٹائل

جہیز کے بھکاری

تحریر :سعدیہ بی بی

میں بچپن میں سوچا کرتی تھی کہ لڑکی کتنی خوش نصیب ہوتی ہے، اسے جہیز میں کتنا سامان ملتا ہے، کپڑے، زیور، کراکری، فرنیچر، حتی کہ کبھی کبھی گاڑی یا مکان بھی، وہ بھی اپنی پسند کا۔

مگر جب شعور کی منزل طے کی تو جانا یہ تو اس کی سکھی زندگی کی قیمت ادا کی جاتی ہے، وہ قیمت جو کبھی کبھی اس کے خاندان کو تمام عمر کے لئے قرضوں کے بوجھ میں جکڑ سکتی ہے۔

یہ عقدہ بھی مجھ پر کھلا کہ اس لالچ بھرے معاشرے میں جب کسی کم آمدنی والے خاندان میں لڑکیاں پیدا ہوجائیں تو پھر والدین کی راتوں کی نیند کیسے حرام ہوتی ہے، جس کی ایک وجہ بہتر رشتوں کی کمی اور دوسرے لڑکے والوں کی طرف سے مطالبات کی لمبی فہرست جیسے کسی دکان پر خریداری کے لئے آئے ہوں، جو کبھی کھل کر کی جاتیں ہیں تو کبھی اشاروں کنایوں میں، گویا لڑکی انسان نہیں بلکہ کوئی بے جان مگر قیمتی شے ہے جسے وہ خرید رہے ہوں۔

 

برات یا محاذ جنگ

کبھی سوچا کہ پانچ سو یا چھ سو افراد کے لائو لشکر سمیت جب برات کی آمد کا طبل جنگ بجتا ہے تو ایسےلگتا ہے  جسے کسی جنگی محاذ پر لشکرکشی کی جارہی ہو، گویا لڑکی والے دشمن کی صف میں اور لڑکے والے سورما جو اسے فتح کرنے آرہے ہو۔

میری ایک دوست ہےجس کے گھر کا ماحول کچھ یوں ہے کہ وہاں دو لڑکیاں شادی کرکے آئیں، ایک کا جہیز بہت عالی شان تھا جبکہ دوسری لڑکی قابل حیثیت سامان ساتھ لے کر آئی تھی۔

اس خاندان میں دونوں بہوئوں کا مان اورعزت جہیزکے ترازو میں رکھ کر تولا گیا ہے، جو بہو  زیادہ سامان لائی ہے اسے عزت دی جاتی ہے جبکہ دوسری جو اس کے مقابلے میں کم سامان لائی ہے اس کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا جاتا، بلکہ کہا جا تا ہے کہ اسے صرف اس لئے برداشت کیا جتا ہے کہ وہ ان کے بیٹے کی پسند ہے۔

 

کیا سب ایک تھالی کے چٹے بٹے ہیں؟

میں سمجھتی ہوں ایسا ہر خاندان نہیں کرتا ہوگا۔ ایک واقعہ مثال کے طور پر دیتی ہوں۔ لکھنٶ کے ایک مسلمان گھرانے میں بیٹی کی شادی تھی جبکہ آس پڑوس کے لوگ غیر مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ پڑوسی ہونے کے ناطے انہیں بھی دعوت دی گئی۔

نکاح کے بعد برات روانہ ہوئی تو پڑوسی لڑکیوں نے جو کہ غیر مذہب سے تھیں نے شادی ہونے والی لڑکی کی والدہ  سے سوال کیا کہ کیا آپ لوگ جہیز پہلے بھیج چکے تھے کیونکہ ہم نے کوئی سامان باہر جاتے ہوئے نہیں دیکھا، تو والدہ کا جواب تھا کہ لڑکے گھر والوں کو صرف بیٹی سے سروکار تھا تو اسے ہی مان سے شادی کر کے لے گئے، کہا کہ دل کا ٹکڑا ہمارے حوالے کر رہے ہیں اس سے بڑھ کے اور کیا چاہیئے۔

 

جہیز کی شرعی حیثیت

میں نے اس مسئلے کو اسلا م کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی تاکہ جہیز کی شرعی حیثیت کو سمجھ سکوں۔ میں نے جو کچھ بھی جہیز کے مسئلے پر پڑھا یا جانا اس میں سمجھ میں آنے والی بات یہ ہے کہ اگر والدین اپنی خوشی سے اپنی حیثیت کے مطابق بیٹی کوکوئی تحفہ دیں، جس میں نمود و نمائش کا عنصر بالکل نہ ہو تو کوئی حرج  نہیں۔

لیکن اگر ان پر ایسے مطالبات کا بوجھ ان کی مرضی کے بغیر ڈالا جائے جسے وہ پورا نہ کر سکیں تو یہ سختی سے منع ہے۔

میرا ماننا ہے کہ جہیز ایک ناپسندیدہ رسم ہے۔ جب بھی اس کا تزکرہ ہوتا ہے تو اس سے جڑے مسائل کی ہے نشاندی ہوتی ہے۔ مگر پھر بھی یہ معاشرتی روایت آج بھی قائم و دائم ہے۔

 

جہیز خوری بند کرو    

میں نے کچھ عرصہ پہلے اقوام تحدہ کی ویب سائیٹ پر سے نو ٹو ڈائوری کی کمپین کے لئے استعمال ہونے والی ایک تصویر دیکھی تھی جس میں ایک دلہن بنی لڑکی سامان سے لدے پھندے یعنی جہیذ سے بحری ایک گاڑی کو کھینچ رہی ہے جس پر اس کا دولہا بھی سوار ہے۔ اس کے ساتھ یہ ہیش ٹیگ بھی تھے کہ جہیز خوری بند کرو اور نمائژ نہ لگائو۔

وہ تصویر اپنی وضاحت خود کر رہی تھی جس کے لئے شاید کسی بھی عنوان کی ضرورت نہ تھی ۔ وہ تصویر گویا اس ناانصاف، لالچی  اور بے حس معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ تھا کہ کیسے ایک لڑکی اور اس کے خاندان کو نئی زندگی کی شروعات میں ہی کندھوں پر دوسروں کی توقعات کا بوجھ لادنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

 

جہیز کے لئے پچیس ہزارلڑکیوں کا قتل

یہ بلاگ لکھنے کے لئے میں تھوڑی سی تحقیق بھی کر رہی تھی کہ اس دوران میں نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر دو ہزار سولہ میں شائع ہونے والی ایک دل کو ہلا دینے والی خبر پڑھی۔

وہ خبر شکیل اختر نے بھارت سے دی تھی جس میں انہوں نے وہاں تین برسوں کے دوران جہیزسے منسلک نئی شادی شدہ لڑکیوں کی اموات کے بارے میں بتایا تھا۔

بھارت کے نیشنل کرائم بیورو ریکارڈ کے مطابق تین برسوں کی مدت میں جہیز کے تیس ہزار سے زائد مقدمات درج ہوئے۔ چوبیس ہزار سات سو لڑکیاں جہیز کی فرسودہ روایت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔

آئیے ، ہم سب مل کر اس اخلاقی گراوٹ کی مثال روایت کو ختم کرنے میں کردار ادا کریں۔ آیئے مل کر  ایک ایسا حساس معاشرہ بنانے میں پہل کریں کہ جہاں صبح کا اخبارجہیز نہ لانے کی صورت میں سسرال کے ظلم و ستم کا شکار، طلاق  یا موت کی بھینٹ چڑھنے والی لڑکیوں کی خبروں کی بجائے ان کی کامیابیوں کی خبروں سے بھرا ہو۔

معاشرے کوعورت مخالف جہیزکی فرسودہ روایت سے پاک کرنے کا فرض میرا، آپ کا بلکہ ہم سب کا ہے۔

کیا آپ جہیزکو درست سمجھتے ہیں یا پھر نہیں ؟

 

سعدیہ بی بی طالب علم ہیں اور مختلف سماجی موضوعات پر بلاگ لکھتی رہتی ہیں۔ 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button