خیبر پختونخوا

لندن میں چارسدہ سے تعلق رکھنے والی سر جڑی بہنوں کا کامیاب آپریشن

برطانیہ کے گریٹ اورمنڈ سٹریٹ ہسپتال میں 55 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد چارسدہ سے تعلق رکھنے والی سر جڑی بچیوں کو کامیابی سے علیحدہ کردیا گیا۔ صفا مروہ پشاور کے علاقے حیات آباد کے ایک ہسپتال میں سات جنوری 2017 کو پیدا ہوئی تھیں جن کے سر جڑے ہوئے تھے۔

برطانوی اخبار ڈیلی میل میں دو روز قبل شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق چارسدہ سے تعلق رکھنے والی جڑواں بچیاں صفا اور مروہ کو الگ کرنے کے لیے نیورو سرجن ڈاکٹر نورالاویسی جیلانی اور پلاسٹک سرجن پروفیسر ڈیوڈ ڈوناوے کی قیادت میں سو رکنی ٹیم نے 4 ماہ کے عرصے کے دوران 3 آپریشنز کیے جن میں مجموعی طور پر 55 گھنٹے لگے۔

سرجنوں نے ان کی مشترکہ کھوپڑی میں ایک دوسرے میں ملے دماغ کو الگ کیا، انہیں ری پوزیشن کیا اور پھر ان کے سر کو کاٹ کر الگ کرنے کے بعد دونوں کی ہڈیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے الگ الگ ان کی کھوپڑیاں (سروں کو) بنائی گئیں۔

امسال فروری میں ان کا آخری اپریشن کیا گیا اور آجکل لندن میں دونوں رو بہ صحت ہیں اور 2020 میں وطن واپس لوٹنے والی ہیں۔

اس آپریشن پر خطیر رقم درکار تھی جو بچیوں کے اہل خانہ کے پاس نہیں تھی چنانچہ علاج کے بیشتر اخراجات پاکستان کی معروف کاروباری شخصیت مرتضٰی لاکھانی نے اٹھائے ہیں۔

بچیوں کی ماں-34 سالہ زینب بی بی- کا کہنا تھا کہ وہ ہسپتال والوں کے مشکور ہیں اور انہوں نے جو کچھ کیا اس کیلئے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

ان کا کہنا تھا کہ اللہ کے فضل سے میں نے ایک بچی کو گھنٹہ بھر کیلئے گود میں لیا اور پھر دوسری کو، اللہ نے ہماری دعائیں سن لیں ہیں۔

دونوں بچیوں کو جن کے والد دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق  ہوچکے ہیں یکم جولائی کو ہسپتال سے فارغ کیا گیا اور اس وقت ان کی ماں، 57 سالہ دادا/نانا اور ماموں یا چچا ان کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔

 

رپورٹ کے مطابق طبی زبان میں اس طرح کے کیس کو (جڑواں جن کے سر جڑے ہوتے ہیں) کارنیوپیگس ٹوئنز (جڑواں) کہتے ہیں جو شاذ نادر ہی سامنے آتا ہے، ہر دو اعشاریہ پانچ ملین پیدائشوں میں ایک کیس اس طرح کا سامنے آتا ہے اور بسااوقات بچے ایک دن سے زیادہ جی نہیں پاتے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ہر کیس انوکھا اور الگ نوعیت کا ہوتا ہے اور 1952 میں پہلی کوشش سے لے کر اب تک 60 کیسز میں ماہرین کامیابی سے کارنیو پیگس بچوں کو الگ کرچکے ہیں۔

صفا مروہ کا علاج کرنے والی ٹیم ہی اس سے قبل 2006 اور 2011 میں بھی اس طرح کے آپریشن کر چکی ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ ایسا پیچیدہ کیس انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کی تیاری کیلئے ٹیم نے ورچول رئیلیٹی کا استعمال کرتے ہوئے بچیوں کے سر کی تھری ڈی نقل تیار کی۔

بچیوں کا پہلا آپریشن اکتوبر 2018 میں ہوا جب ان کی عمر 19 ماہ تھی، 15 گھنٹے طویل اس آپریشن کے دوران ان کی شریانوں (arteries) اور دماغ کو الگ کیا گیا جبکہ اس کے ایک ماہ بعد دوسرے آپریشن میں ان کی رگیوں (veins) کو جدا کیا گیا۔

لیکن صفا کی گردن میں خون جمع ہونے کی وجہ سے دونوں بچیوں کا خون بہنا شروع ہوگیا تھا، مروہ کو صفا سے خون ملنا بند ہوگیا جس کی وجہ سے اس کے دل کی دھڑکن کی شرح کم ہوئی جس پر ڈاکٹروں کو لگا کہ مروہ کو وہ کھونے والے ہیں۔

اس پیچیدگی کے باعث ڈاکٹروں نے دونوں بچیوں کی ایک مشترکہ کلیدی رگ اسے دی جس کے نتیجے میں 12 گھنٹوں سے بھی کم عرصہ بعد صفا کو سٹروک ہوا۔

ڈاکٹر جیلانی کے مطابق انہیں بدترین صورتحال کا خدشہ تھا، انہیں لگا کہ صفا مر چکی ہے، بقول ان کے وپ کچن کے فرش پر گر گئے اور پھوٹ کر رو دیے، میری بیگم بیچاری نے مجھے کبھی اس حالت میں نہیں دیکھا تھا۔

خوش قسمتی سے دونوں بچیوں کی حالت بہتر ہوئی، جنوری میں ان کی سِکن سٹریچ کی گئی اور پھر اگلے ماہ حتمی اور بڑے آپریشن کے دوران انہیں الگ کیا گیا۔ ڈاکٹر جیلانی اور پروفیسر ڈوناوے کا ایک مشترکہ بیان میں کہنا تھا کہ بچیوں کی فزیوتھراپی کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ صفا مروہ اور ان کے خاندان کی مدد کرکے بہت خوش ہیں، یہ ان کیلئے اور ان کے علاج پر مامور ٹیم کیلئے ایک طویل اور کٹھن سفر تھا۔ واضح رہے کہ صفا مروہ کے آپریشن کیلئے تمام بھاگ دوڑ کشمیر سے تعلق رکھنے والے اویس جیلانی نے کی جو دنیا بھر میں بچوں کے علاج کیلئے مشہور گریٹ اورمنڈ سٹریٹ ہسپتال میں پیڈیاٹرک سرجن ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button