ہیلمٹ نہیں پہن سکتے لہٰذا ٹریفک پولیس چالان نہ کرے۔ رنجیت سنگھ
صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ مجلس عمل کے ایم پی اے کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں پک اور کرپان کی عزت کی جاتی ہے لیکن یہاں کچہری جانے پر ہمیں کرپان ہٹانے کا کہا جاتا ہے۔

متحدہ مجلس عمل سے تعلق رکھنے والے رکن خیبرپختونخوا اسمبلی رنجیت سنگھ نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں مذہبی آزادی ہے لیکن یہاں ہمیں روکا جاتا ہے۔
صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ مجلس عمل کے ایم پی اے کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں پک اور کرپان کی عزت کی جاتی ہے لیکن یہاں کچہری جانے پر ہمیں کرپان ہٹانے کا کہا جاتا ہے۔
رنجیت سنگھ نے درخواست کی کہ ان کی برادری کو پک اور کرپان اتارنے کا نہ کہا جائے جبکہ وہ ہیلمٹ بھی نہیں پہن سکتے لہٰذا ٹریفک پولیس ان کا چالان نہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ پک اور کرپان مذہبی نشانیاں ہیں جنہیں ہم ختم کرسکتے ہیں نہ ہی آپ جس پر کا کہنا تھا کہ روایات کا خیال رکھنا ضروری جبکہ ملکی آئین میں تمام مذاہب کا احترام شامل ہے۔
انہوں نے معزز رکن اسمبلی سے اتفاق رائے کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے قانونی پیچدگیاں دیکھنے کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ سکھ مت کے پانچ امتیازی نشان ہیں جنہیں پانچ ککے کہا جاتا ہے جن میں کرپان، کڑا، کچھا، کیس (سر کے بال اور ڈاڑھی مونچھیں) اور کنگھا شامل ہیں جنہیں پانچ ککار بھی کہتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل کیس کے تارک کو سکھ مت سے خارج کر دیا جاتا تھا لیکن اب اس میں لچک آگئی ہے۔
کیس نہ رکھنے والے سکھ کو مونا کہتے ہیں، لیکن ان کادرجہ پنج ککوں کا پالن کرنے والے سکھوں سے کمتر ہوتا ہے جبکہ باقی چار ککوں کے تارکین کو پتت کہا جاتا ہے اور جب تک وہ اکال تخت پر حاضر ہو کر معافی نہ مانگیں اور دوبارہ امرت نہ پیئیں انھیں سکھ مت میں شامل نہیں کیا جاتا۔
یہ بھی واضح رہے کہ سکھوں کے دسویں گرو، گرو گوبند سنگھ نے 1699 میں تمام سکھوں کو کیش گڑھ کے قریب اکٹھا کیا اور پانچ ککے یا پانچ ککار جنہیں اردو میں پانچ کاف کہتے ہیں سکھوں کو اپنی زندگیوں کا لازمی حصہ بنانے کا حکم دیا جس کے بعد سے آج تک سکھ مت میں اس حکم کو مذہبی فرمان کا درجہ حاصل ہے۔