خیبر پختونخوا

جامعہ پشاور میں طلبہ پر تشدد کی تحقیقات کےلئے پارلیمانی کمیٹی قائم

پارلیمانی کمیٹی اس واقعہ کے مختلف زاویوں اور پہلو ؤں کو دیکھے گی اور 14 دنوں کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی اور پارلیمانی کمیٹی کے حقائق کی روشنی میں ایکشن لیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے پشاور یونیورسٹی کے واقعے کیلئے ایک اعلیٰ سطحی پارلیمانی انکوائری کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔ انکوائری کمیٹی میں حکومتی اور اپوزیشن دونوں بنچوں کی نمائندگی ہو گی جو احتجاج اور لاٹھی چارج کے خلاف تحقیقات کرے گی۔

کمیٹی کی تشکیل کے احکامات وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے جمعہ کے روز وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں طلباء کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران جاری کئے۔ صوبائی ترجمان شوکت یوسفزئی، سیکرٹری اعلیٰ تعلیم اور سیکرٹری اطلاعات بھی اس موقع پر موجود تھے۔

طلباء نے وزیراعلیٰ کو اپنے مسائل اور گزشتہ روز کے افسوسناک واقعے کے بارے میں بتایا۔ وزیراعلیٰ نے اس سانحے پر افسوس کا اظہار کیا اور محکمہ اعلیٰ تعلیم کو ہدایت کی کہ ایک ابتدائی کمیٹی بنائی جائے جو اس واقعہ کے اصل اسباب کا پتہ لگائے اور محکمہ اعلیٰ تعلیم کی کمیٹی اپنی سفارشات پارلیمانی کمیٹی کو فوری طور پر پیش کرے۔

پارلیمانی کمیٹی اس واقعہ کے مختلف زاویوں اور پہلوؤں کو دیکھے گی اور 14 دنوں کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی اور پارلیمانی کمیٹی کے حقائق کی روشنی میں ایکشن لیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ نے یونیورسٹی میں غیر قانونی تعیناتیوں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ حکومت ہر سطح پر قانون کے عین مطابق انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گی ۔ پارلیمانی کمیٹی کسی بھی فرد کے خلاف وہ کتناہی بااثر ہو، کے غلط کام اور اپنے اختیارات سے تجاوزکی نشاندہی کرے گی ۔

اس موقع پر طلباء نے ہاسٹلوں کے غیر قانونی قبضے کے خلا ف اقدامات کو سراہا تاہم فیس میں بے تحاشا اضافے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اُنہوں نے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل اور ابتدائی انکوائری کو بھی سراہاتاکہ اس واقعہ کے اصل محرکات سامنے لائے جا سکیں ۔

دوسری جانب جماعت اسلامی کے رکن خیبر پختونخوا اسمبلی  و سابق وزیر بلدیات عنایت اللہ خان نے پشاور یونیورسٹی واقعے کے خلاف صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ میں توجہ دلاؤ نوٹس جمع کرادیا جبکہ پشاور پولیس چیف قاضی جمیل الرحمن نے ایس ایس پی طارق سہیل کو جلد از جلد انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔

واضح رہے کہ جمعرات کے روز پشاور یونیورسٹی کے طلبہ احتجاج کر رہے تھے جن پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کیا۔ اس دوران 6 طلبہ زخمی ہوگئے اور 28 طلباء کو پولیس نے حراست میں لیا۔

واقعہ کے خلاف جمعہ کے روز خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں، بنوں، مردان، سوات اور پشاور میں طلبہ نے احتجاجی مظاہرے کئے۔

جمعہ کے روز دیر سے جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی عنایت اللہ خان نے توجہ دلاؤ نوٹس جمع کیا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ نہتے طلبہ پر طاقت کا استعمال کیا گیا۔ معاملہ ایوان میں زیر بحث لایا جائے۔

سی سی پی او پشاور کے مطابق واقعے کی تحقیقات کےلئے دستیاب ویڈیوز اور سی سی ٹی وی فوٹیج کو دیکھ کر واقعہ کی دوبارہ چھان بین سمیت واقعہ کے محرکات اور عوامل کا تعین کیا جائے۔

قاضی جمل الرحمان نے کہنا ہے کہ طلباء کے احتجاج کو اپنے مذموم مقاصد کے استعمال کرنے والوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔ اس لیے چاہتے ہیں کہ جامع اور مکمل تحقیقات کے بعد ذمہ داروں کے خلاف قدم اٹھائیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button