خیبر پختونخوا

‘بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے خود زیادتی کا شکار بنے ہوتے ہیں’

سال 2017 اور 2018 میں جنوری سے جون تک بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 4 ہزار 86 کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔

ناہید جہانگیر

خیبرپختونخوا میں گزشتہ کچھ عرصے سے جنسی تشدد کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جن میں زیادہ تر کیسز بچوں کے ہوتے ہیں۔ سال 2017 اور 2018 میں جنوری سے جون تک بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 4 ہزار 86 کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں جبکہ اصل میں ان کیسز کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہیں لیکن والدین بدنامی سے بچنے کےلئے ان کو رپورٹ نہیں کرتے۔

اس ضمن میں ڈاکٹر وجاہت ارباب نے ٹی این این کے ساتھ ایک خصوصی نشست کے دوران بتایا کہ جنسی تشدد پر جو تحقیق ہوئی ہیں اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچوں پر جنسی تشدد میں 60 فیصد رشتہ دار، 30 فیصد اپنے گھر والے اور 10 فیصد دیگر لوگ ملوث ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریسرچ میں ایسی کوئی ایک خاص وجہ سامنے نہیں آئی کہ ایک شخص کیوں بچوں کو اپنی حوس کا نشانہ بناتا ہے البتہ ایک بات معلوم ہوئی ہے کہ جب ایک شخص بچپن میں جنسی زیادتی کا شکار بنا ہوتا ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ انتقام کے طور پر دیگر بچوں کو اپنی حوس کا نشانہ بناتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ پھر ایک نشہ بن کر اُس کی عادت بن جاتی ہے اور پھر جب بھی اُسے موقع یا ماحول ملتا ہے تو وہ اپنی عادت پوری کرتا ہے۔

ڈاکٹر وجاہت نے مزید کہا کہ بعض افراد بچوں میں زیادہ کشش محسوس کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے چائلڈ پورن بھی دیکھتے ہیں جس کے ساتھ وہ وہ بچوں پر جنسی تشدد کی کوشش کرتے ہیں اور پھر وہ اُن کی عدات بن جاتی ہے۔

نفسیاتی تحقیق کے مطابق بلوغت تک پہنچنے کے ساتھ انسان میں بعض ایسی جنسی تبدیلیاں آتی ہیں جس کے ساتھ اُس کے جنسی خواہشات بڑھ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر وجاہت کا کہنا ہے کہ اس مرحلہ میں بعض لڑکے غلط راستوں پر نکل پڑتے ہیں اور اپنی خواہش پوری کرنے کےلئے آسان ہدف ڈھونڈتے ہیں جو بچے ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر وجاہت نے بتایا کہ میں نے خود ایسے 2 کیسز ہینڈل کئے ہیں، ایک 30 سالہ لڑکا تھا جو وہم کی بیماری میں مبتلا تھا اور مجھ سے علاج کرواتا تھا، علاج کے دوران اُس نوجوان نے باتوں باتوں میں بتایا کہ اُس کی بیماری کی وجہ اُس کا ماضی ہے، ماضی میں اُس نے 3 سال کی بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی جو اُن کی ہمسایہ تھی جسے والدہ اُس کے ساتھ چھوڑ کر گئی تھی کہ اِس کا دھیان رکھنا۔ اُس لڑکے کا کہنا تھا کہ بچی کو حوس کا نشانہ بنانے کے بعد ضمیر نے اُسے ملامت کرنا شروع کردیا اور اب وہ اپنے کئے نادم اور شرمندہ ہے کہ اُس نے کیوں ایسا کیا؟۔

ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ دوسرا کیس ایک بچی کا تھا جو ذہنی اور جسمانی لحاظ سے کافی کمزور تھی اور علاج کے دوران وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس بچی نے بتایا کہ مجھے اپنا سگا والد جنسی تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔

وجاہت ارباب نے بتایا کہ دنیا کی ترقی کے ساتھ ہم اپنے روایات سے دور جارہے ہیں جس کے باعث اِس قسم کے واقعات دن بہ دن بڑھ رہے ہیں، ہم نے اپنے بچوں کے کمرے الگ کردیئے ہیں اور اُنہیں ٹیکنالوجی ہاتھ میں تھما دی ہیں اور اُن سے یہ پوچھنا تک گوارا نہیں کرتے کہ وہ اُس ٹیکنالوجی کو کس طرح استعمال کررہے ہیں اور اُن کی ترجیحات کیا ہیں۔

انہوں نے کہا ‘ماں یہ کہہ کر خود کو بری الذمہ قرار دے رہی ہے کہ بچے اُس کی بات نہیں مانتے یا اُس کے بچے اُس سے زیادہ سمجھدار ہیں لیکن اصل میں بچے کبھی بھی اپنے والدین سے زیادہ سمجھدار نہیں ہوتے’۔

ڈاکٹر وجاہت نے بتایا کہ وہ بچوں کو جنسی تشدد کے حوالے سے واضح آگاہی دینے کے حق میں نہیں ہے کیونکہ یہ اور بھی خطرناک ہوسکتا ہے البتہ والدہ اپنے بیٹے یا بیٹی کو بالواسطہ طور پر یعنی اشاروں اشاروں میں سمجھائے اور اُن پر گہری نظر رکھے۔

ڈاکٹر وجاہت کا کہنا ہے کہ جب ایک نوجوان لڑکے یا لڑکی کو کسی چیز سے ڈائریکٹ سخت الفاظ میں منع کیا جائے یعنی اُنہیں سیدھی بات بتائی جائے تو اُن میں اُس چیز کےلئے تجسس پیدا ہوجاتا ہے اور اُس سے خود کو آگاہ کرنے کےلئے تجربہ کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا جنسی تشدد کے کیسز کو رپورٹ کرتا ہے جو آگاہی کے ساتھ ساتھ بچوں پر بُرا اثر مرتب کرتا ہے۔ بار بار ایک چیز کا ذکر کرنے سے ذہن اُس جانب جاتا ہے اور بچے پھر خود بھی اُس کام کا تجربہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تجربہ ایک عادت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ واضح الفاظ میں تشدد کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کے حق میں اس لئے بھی نہیں ہوں کیونکہ وقت سے پہلے ہم کیوں اپنی نسل کو ہر بات سے باخبر کردیں جس کا نتیجہ بھی اچھا نہیں ہوگا۔ ‘اسلام کہتا ہے کہ گناہ کو چھپا کر اُس پر پردہ ڈال دیں’

اگر اسلام گناہ کو چھپانے کی بات کرتا ہے تو اِس میں ہماری خیر ہوگی، ایک غلط کام کو میڈیا پر اتنی ہوا نہیں دینی چاہیئے کیونکہ وہ ہماری نوجوان نسل پر بُرا اثر ڈالتی ہے۔

ڈاکٹر وجاہت نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں جنسی تشدد کی روک تھام کےلئے والدین کی توجہ کے بعد حکومت کو بھی اقدامات اٹھانے چاہیئے اور ہر قسم کے غلط ویب سائیٹس پر پابندی لگائی جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو جنسی تشدد کا یہ ناسور کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائے گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button