جرائمخیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

‘کسی کے گمراہ کرنے پر منشیات کی خریدو فروخت میں ملوث ہوئی تھی’

نسرین جبین

‘میں منشیات کی خرید و فروخت کے کیس میں گرفتار ہوگئی میرے سُسرال اور شوہر کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور میری امی کا گھر پشاور میں ہے میرا آنا جان لگا رہتا ہے پشاور لیکن جب میں گرفتار ہوئی تو میں سزا سے زیادہ اس بات سے پریشان تھی کہ جب میرے سسرال اور شوہر کو پتا چلے گا تو بدنامی تو ہوگی مجھے گھر سے نکال دیا جائے گا اور میرے بچوں کا اور میرا مستقبل تباہ ہو جائے گا’

یہ کہنا ہے پشاور سے تعلق رکھنے والی فاطمہ ( فرضی نام) کا۔ فاطمہ نے بتایا کہ جب وہ گرفتار ہوئی تو انکو طرح طرح کے وسوسوں نے گھیر لیا لیکن اللہ نے مدد کی اور انکو پروبیشن پر بھیج دیا گیا اور وہ خواتین پروبیشن آفیسرز کی زیر نگرانی آگئی جس سے انکو تحفظ حاصل ہوگیا۔

‘میں پشاور اپنے میکے آتی تو خاتون پروبیشن آفیسرز سے مل لیا کرتی تھی اور اس سارے معاملے کا کسی کو پتا نہیں چلا میں کسی کے گمراہ کر دینے سے اس میں ملوث ہو گئی تھی لیکن جب میری اصلاح ہوگئی اور اچھے طریقے سے میرا مستقبل بردباد کیے بنا مجھے سمجھا دیا گیا تو میں اب سمجھ گئی ہوں اور اب کسی صورت بھی کسی کے بہکاوے میں نہیں آتی۔
اس حوالے سے ڈائریکٹر پروبیشن ڈیپارٹمنٹ معلم جان کا کہنا ہے کہ خواتین عام طور پر دفعہ 302 یا گھر سے بھاگ جانے والے جرم میں سزا کاٹ رہی ہوتیں ہیں اورا ن کی جان کو خطرہ ہوتا ہے ایسے مجرموں کو قانون کے تحت جیل میں ہی رکھا جاتا ہے اور پروبیشن پر نہیں بھیجا جا سکتا دوسری طرف خواتین کے جرم کرنے اور سزا پانے کی شرح بھی کم ہے اس لیے کے پی میں صرف 16 خواتین پروبیشن پر ہیں جن کے لیے 6 خواتین آفیسرز پروبیشنرز ہیں خواتین کوئی مسئلہ نہیں ہوتا وہ اپنی سزا اپنے بچوں کے ساتھ گھر پر کاٹتی ہیں کسی کو علم تک نہیں ہوتا اور ان پر کوئی الزام یا بدنامی بھی نہیں ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک فیصد بھی ایسی خواتین سامنے نہیں آئیں جو کہ دوبارہ کسی جرم میں شامل ہوئی ہو۔

اس حوالے سے جمعیت علمائے اسلام کی خیبر پختونخوا اسمبلی کی رکن نعیمہ کشور نے کہا کہ جب پروبیشن اینڈ پے رول ایکٹ پاس ہوا تو میں نے اس میں ترمیم کے لیے تجویز دی تھی کہ صوبے کے ہر ڈسٹرکٹ میں خاتون پروبیشن آفیسرز بھرتی کی جائیں پروبیشنرز ایسی مجبور خواتین ہوتی ہیں جو بے بس ہوتی ہیں یا تو انہیں پھنسایا گیا ہوتا ہے جرم میں یا پھر وہ غلطی اور غربت سے اس طرف آجاتی ہیں لہذا اگر خواتین کو اگر مرد پروبیشن آفیسرز خواتین کے حوالے کیا جائے گا تو مزید مسائل جنم لیں گے جبکہ میری دوسری تجویز یہ تھی کہ اس کے حوالے سے بنائی جانے والی ضلعی کمیٹیوں میں ہر ضلع سے ناظم اور صوبے کی سطح پر ایم پی اے کو شامل کیا جائے تاہم میری تجاویز منظور کرتے ہوئے انہیں ایکٹ میں ترمیم کی بجائے انہیں رولز میں شامل کر لیا گیا ہے جس پر عمل درآمد کے بہتر نتائج برآمد ہونگے جبکہ خواتین سزا یافتہ اور جیل جانے کے الزامات اور تہمتوں سے بچ سکیں گی اور معاشرے میں ایک باوقار اور اچھے شہری بن سکیں گی۔

پروبیشن آفیسرنے نام ظاہر نا کرنے کی یقین دہانی پر کہا کہ صوبے میں خواتین کے جرم کرنے کی شرح کم ہے جبکہ مردوں کی زیادہ ہے لہذا ہر ڈسٹرکٹ میں مرد آفیسرز کی تعداد بڑھائی جائے اور خواتین بھی تعینات کی جائے، انہوں نے کہا کہ اس ڈیپارٹمنٹ کو کم کی لفٹ کرائی جاتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button