خیبر پختونخوا

بونیر، ماربل کان حادثے کے چار روز بعد لاشیں نکال لی گئی، ڈپٹی کمشنر کی بے حسی کی انتہا

نصیب یار چغرزئی

 

بونیر, سلارزی کے علاقہ بازارگے کی پہاڑوں میں ماربل کان حادثے میں دو مزدوروں کی لاشیں ملبے تلے سے چار روز بعد نکال کر ریسکیو1122 اور مقامی لوگوں نے اپریشن مکمل کردیاـ

چار روز پہلے واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب باقی مزدوروں نے چھٹی کر لی تھی لیکن دو نامعلوم وجوہات کی بنا پر لیٹ ہوگئے تھے کہ اس دوران ماربل کان کی پہاڑی ان پر بیٹھ گئی۔

مقامی پولیس کے مطابق واقعہ چار اور ساڑھے چار بجے کے درمیان پیش آیا تھا جبکہ پولیس پانچ بجے تک جائے وقوعہ پہنچ گئے تھے۔ واقعے کے بعد مقامی لوگ انتظامیہ اور ریسکیو1122 موقع پر پہنچ کر ملبہ ہٹانے میں مصروف ہوگئےـ

شروع سے  ریسکیو آپریشن میں شدید مشکلات کا سامنا تھا، ملبے تلے مزدورں کی صحیحی  نشاندہی کوئی نہیں کرسکتا تھا کہ مزدور کہاں ہونگے۔ دوسری مشکل یہ پیش آرہی تھی کہ بڑے پتھروں کو ہٹانے کےلیے کوئی مشینری نہیں تھی اور نہ ہی اس جگہ کو مشینری پہنچانے کےلیے راستہ تھا۔ ریسکیو اہلکاروں کے مطابق حادثے کے 24 گھنٹے بعد وہاں ایکسویٹر پہنچایا گیا تھا جس سے ملبے تلے دبے مزدورں کے پیاروں کی کچھ امید پیدا ہوئی تھی۔

ملبہ ہٹانے میں سارا کام انہی کانوں میں کام کرنے والے مزدور کرہے تھے کیونکہ کوئی اور اس میں کام کرنہیں سکتے تھے وہ لوگ بھاری پھتروں کو باردو کی مدد سے بلاسٹ کرکے توڑ تے اور ایکسیوٹر ملبے کو ہٹاتا اس طرح کام جاری تھاـ

وہاں موجود لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم نے ڈپٹی کمشنر سے مزید امداد کی اپیل کی مگر جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ملبہ ہٹانے کی ساری ذمہ داری لیز ہولڈر پر آتی ہے، وہ ہی اس کا ذمہ دار ہے، کام کرنے والی مشینری کی فیول کا خرچہ اور ملبہ ہٹانے میں مصروف مزدورں کےلیے خرچہ پانی کا بندوبست سب لیز ہولڈر کی ذمہ داری ہے۔

اس جگہ پر موجود ایک شخص نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ہمارے پاس مشینری خراب ہوگئی اور جب اس کےلیے ہم نے ڈی سی سے مکینک کا کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا اور یہ ذمہ داری بھی لیز ہولڈر پر ڈال دی ـ

جب ہم نے ریسکیو اپریشن کے نگرانی کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر سید حماد حیدر سے وہاں موجود لوگوں کے بیان پر موقف لینے کا کہا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ میں کوئی سیاسی لیڈر نہیں بلکہ میں سرکاری افیسر ہو میں ان کو جواب دہ نہیں ہو ان باتوں کا کوئی جواب دینا نہیں چاہتاـ

ریسکیو اپریشن کے آغاز کے چھتیس گھنٹے بعد صوابی سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور کی لاش برآمد ہوئی جس کو ریسکیو 1122 نے قریبی ہسپتال سے ضروری کاروائی کے بعد  ابائی گاؤں منتقل کردیاـ

دوسری لاش چار دن بعد مل گئی جس کا تعلق تحصیل خدوخیل کے گاؤں باغ سے تھا ان کو بھی ریسکیو1122 نے ابائی گاؤں منتقل کردیاـ

ریسکیو 1122 بونیر کے ترجمان کے مطابق آپریشن میں بونیر ،مردان،سوات اور صوابی کے سرچ اینڈ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ٹیموں نے حصہ لیا تھا

سرچ آپریشن میں آڈیو سنسرز،سرچ ٹیم اور  سینسر ڈیواس کا استعمال کیا گیا ہے

ان کا کہنا ہے کہ ریسکیو آپریشن میں 8 ڈیزاسٹر وہیکل 07 ایمبولینسس اور 103 ریسکیو اہلکاروں نے حصہ لیا  ان کی نگرانی انجینئر کاشف خان یوسفزئی ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر بونیر اور اے سی سالارزئی حماد حیدر کررہے تھے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی کے سابق ضلع کونسلر گل محمد طوطا نے ریسکیو اپریشن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی انتظامیہ، ریسکیو1122 اور ٹی ایم او کے بیٹھنے یا اے سی کی نگرانی نے ملبے تلے مزدورں کے لواحقین کو کوئی فائدہ نہیں دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ کل انتظامیہ اور  ٹی ایم اے کے بلوں کو اگر چیک کیا جائے تو اس واقعے کا ایک بہت بڑا بل بنا دیا ہوگا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ایک روپے کی مدد بھی کسی کے ساتھ نہیں کی گئی۔

گل محمد کہتے ہے کہ اچھا تو یہ ہوتا کہ جتنے یہ لوگ اپنے بلوں میں لکھتے  وہ آج ان جابحق مزدورں کے بچوں کو دیتے تو اس سے ان کی تعلیم کا بوجھ کم اور گھر کا چھولا جلتا اور جابحق مزدوروں کے بچے کل بھیگ مانگنے پر مجبور نہ ہوتے

گل محمد نے یہ بھی کہا کہ ماربل کان میں بڑے حادثے انسپکٹر مائین کی غفلت کی وجہ سے پیش آتے ہے اگر وہ ایمانداری کے ساتھ اپنا ڈیوٹی سرانجام دیتے تو یہ نوبت نہ آتی  ـ

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button