خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

ایک بھکاری دن میں کتنی رقم کماتا ہے؟

محمد باسط خان

کئی سالوں کا مشاہدہ ہے کہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہوتے ہی مختلف شہروں کی سڑکوں، گلیوں، مساجد، بازاروں، مارکیٹوں، ہسپتالوں غرض یہ کہ آپ شہر کے کسی بھی مقام سے گزرینگے تو آپ کو پیشہ ور بھیک مانگنے والوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ صورتحال خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کا بھی ہے جہاں پر آجکل پیشہ ور گداگروں کا راج ہے۔ زیادہ تر گداگر افطاری کے بعد مختلف شاہرواں پر اپنا باقاعدہ کاروبار کرتے ہیں، جسمیں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہوتے ہیں، تحقیق کے مطابق بیشتر بھکاریوں کا تعلق پنجاب اور سندھ کے علاقوں سے ہیں۔ یہ لوگ تب تک کسی کی جان نہیں چھوڑتے جب تک وہ آپکی جیب سے نوٹ نہ نکال لیں۔

اسی حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ  ایک بھکاری روزانہ تین سے چار ہزار روپے کما لیتے ہیں چونکہ پوش علاقوں میں خصوصا رمضان المبارک میں لوگ زیادہ تر صدقات دیتے ہیں تو بس سٹاپس اور فٹ پاتھوں پر بھیگ مانگنے والوں کی آمدنی اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

یہ پیشہ ور بھکاری مارکیٹوں بازاروں دکانوں اور گھروں پر چار سے پانچ ٹولیوں میں بن کر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں جن میں زیادہ تر کم عمر بچے، بچیاں اور عورتوں کی بڑی تعداد ہوتی ہیں۔

بازاروں اور مارکیٹس میں زیادہ تر نوجوان بھکاری بھی آپکو نظر آئنگے جو  خیرات میں ملنے والے پیسوں سے رات کی تاریکی میں نشہ کرتے ہیں اور منشیات فروشی کی خرید و فروخت کا بڑے پیمانے پر کاروبار بھی کرتے ہیں۔

آپ کسی بھی ہوٹل یا ریسٹورنٹ پر کھانے پینے کے لئے جائنگے تو ان پیشہ ور بھکاریوں کی ٹولیاں آپ کو گھیر لیتی ہیں جن سے جان چھڑانا انتہائی مشکل ہے اور آپکو تب ہی چھوڑیں گے جب تک آپ انکو  پیسے نہ دیں۔

ان پیشہ ور بھکاریوں کی وجہ سے نہ صرف عوام پریشان ہے بلکہ تاجر بھی کافی نالاں نظر آ رہے ہیں۔ چارسدہ کی تاجر برادری تنظیم کے جنرل سیکرٹری نے ٹی این این کو بتایا کہ یہ گداگر ہمیں بغیر پیسے لئے نہیں چھوڑتے، یہاں پر ایک بھکاری روزانہ کی بنیاد پر چار ہزار روپے با آسانی سے کمالیتا ہے۔

"ایک دن ایک بھکارن میری دُکان پر آئی اور مجھے اپنی رقم گنوانے کا کہا، جب میں نے انکے پیسے گنے تو پورے 38 سو روپے تھے، اگر اس حساب کو دیکھا جائے تو پھر یہ لوگ بالکل مستحق نہیں ہے”۔

جہانزیب بتاتا ہے ایک دوکاندار روزانہ زیادہ سے زیادہ 40، 50 تک صدقہ دے سکتا ہے لیکن یہاں پر درجنوں بھکاری اور بھکارن گھوم رہے ہیں اور ہر بندہ پیسے لئے بغیر آپکی جان نہیں چھوڑتا۔

"یہ ہمارے لئے وبال جان بن چکے ہیں، انتظامیہ بھی خاموش ہے، کئی بار شکایات بھی کئے مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے”۔

جہانزیب خان کا الزام ہے کہ ان بھکاریوں میں زیادہ تر خواتین چور بھی ہوتی ہیں جو دیگر خواتین کا پیچھا کرکے انہیں لوٹتی ہے۔

"اگر کوئی بھی شخص چاہتا ہو کہ اُس کا صدقہ خیرات مستحق افراد کو پہنچیں تو  اپنے ارد گرد ماحول، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کا جائزہ لیں اگر وہ غریب ہے تو پہلے انہیں دیجئے”۔

 

ایک شہری نے ٹی این این کو بتایا کہ اس میں زیادہ تر بھکاریوں کی سر پرستی ٹھیکہ داروں کی ہاتھوں میں ہوتی ہے، انہوں نے بتایا کہ یہاں ایک خاتون تین بچوں سمیت روڈ پر روزانہ کی بنیاد پر بھیک مانگتی ہے اور اپنے آپکو مارمار کر لوگوں سے اللہ کے نام پر مانگتی ہے۔

وہ کہتے ہیں "میں خود گواہ ہوں کہ رمضان سے قبل ایک بھکاری خاتون کے بیٹے کی پشاور میں یونیورسٹی روڈ پر شادی تھی، تو اس کے  ولیمہ پر 45 بکریوں کو ذبح کیا گیا تھا، تو  میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ غیر مستحق ہیں اور ایسے لوگوں کو زکوات دینا بھی گناہ ہے”۔

شہری نے مطالبہ کیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ ان گداگروں کیخلاف کاروائی کرکے انہیں گرفتار کریں اور ان سے یہ معلوم کرنے کی بھی کوشش کریں، کہ آخر یہ پیسہ جو یہ لوگ جمع کررہے ہیں، یہ جا کہاں رہا ہے؟

شہریوں کے اس مسئلے کے حل پر ضلعی انتظامیہ نے بھی ہاتھ کھڑے کر دئے ہیں، جب اسسٹنٹ کمشنر عدنان جمیل سے بات ہوئی تو انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ پہلے بھی گدا گروں کیخلاف آپریشن کیا گیا تھا لیکن اب چونکہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے تو ہماری پوری توجہ لوگوں کو سستی اشیائے خوردنوش کی چیزیں فراہم کرنے پر ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر مان رہے ہیں کہ گداگری ایک پیشہ بن چکا ہے اور مردوں کی نسبت چھوٹے بچے اور جوان لڑکیاں اس پیشے سے وابستہ ہوچکی ہے، جس میں زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے ہیں، انہوں نے کہا کہ ان افراد کیخلاف ضلع انتظامیہ بھر پور کاروائی عمل میں لانے کی کوشش کررہی ہے۔

گداگری کی روک تھام میں صوبائی حکومت کے اقدامات

سال 2020 میں خیبر پختونخوا حکومت نے پیشہ ور گداگروں کے خلاف قانونی مسودہ منظور کیا تھا جس میں بچوں اور خواتین سے زبردستی گداگری کرانے کو جرم  قرار دیا گیا تھا۔

یہ بل سابق صوبائی وزیر قانون سلطان محمد خان نے پیش کیا تھا جسکے تحت خواتین اور بچوں سے زبردستی گداگری کروانا جرم ثابت تصور ہوگا جس پر متعلقہ شخص کیخلاف 5 لاکھ روپے جرمانہ اور ایک سال قید کی سزا دی جائے گی۔

قانون کے تحت بے گھر اور بھکاریوں کی بحالی کے لئے  ‘دارالکفالہ’ قائم کیا جائے گا۔ مجسٹریٹ گداگروں کو بطور سزا دارالکفالہ بھیج سکتا ہے۔ ایکٹ کے تحت دارالکفالہ میں تعلیم، اخراجات اور گداگردی سے بحالی تربیت دی جائے گی۔

کیا قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا ہے؟

لیکن سماجی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب تک اس قانون پر عمل درآمد نظر نہیں آیا ہے۔ چارسدہ میں سماجی کارکن محمد شاہ کا کہنا ہے کہ صرف قوانین کا پاس کرنا کافی نہیں اُس پر عمل درآمد کرنا بھی ضروری ہے۔

"قوانین سے نظام تب بہتر ہوگا جب اُس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد ہوجائے، ایک طرف قانون بن گیا ہے جبکہ دوسری طرف بھکاریوں کی بھرمار ہیں یہ تضاد ہے”۔

انہوں نے کہا کہ تاحال صوبائی حکومت کے پاس کوئی مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں کہ اس وقت خیبرپختونخوا میں بھکاریوں کی تعداد کتنی ہے اور وہ کہاں سے آتے ہیں تو پھر مسئلہ کیسے حل ہوگا؟

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button