خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

‘قوم کی بچیوں کی خاطر اپنے بچوں کو موزوں وقت نہیں دے پا رہی’

 

خالدہ نیاز

‘ملازمت کی وجہ سے میں اپنے گھر اور بچوں کو وقت نہیں دے پا رہی، میرے اور میرے بچوں کے درمیان فاصلہ پیدا ہوگیا ہے جس کا مجھے بہت افسوس ہے لیکن ساتھ میں یہ تسلی بھی ہے کہ قوم کے بچوں کا مستقبل سنوارنے کی تگ و دو میں لگی ہوں’

ثمینہ غنی پشاور کی ضلعی تعلیم افسر (فی میل) کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہی ہے، وہ کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ بالکل بھی وقت نہیں گزارتی، لیکن ذمہ داریاں اب اتنی بڑھ گئی ہے کہ کبھی کبھی انہیں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے لیکن ساتھ میں یہ سوچ کر دل کو سکون بھی ملتا ہے کہ سب کچھ انہیں کی خاطر کر رہی ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میری خدمات قوم کی بچیوں کے لئے ہے.

ان کا بنیادی تعلق صوابی سے ہیں لیکن پیدائش پشاور میں ہوئی ہے اور تعلیم بھی یہی سے حاصل کی ہے۔ انہوں نے گریجویشن جناح کالج فار ویمن پشاور سے کیا ہے جبکہ ایم اے پشاور یونیورسٹی سے کیا ہے، وہ بی ایڈ اور ایم ایڈ بھی کرچکی ہیں۔

اس مقام تک پہنچنے کے لیے شوہر نے بہت ساتھ دیا

ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران ثمینہ غنی نے بتایا کہ وہ شادی سے پہلے ہی درس و تدریس سے وابستہ ہے لیکن ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر کے عہدے تک پہنچنے کے لیے انکے شوہر نے ان کا بہت ساتھ دیا ہے۔ ‘ جب اس عہدے کے لیے درخواستیں طلب کی جارہی تھی تو میرے شوہر نے مجھے کہا کہ اپلائی کرو کیونکہ مجھے یقین ہے کہ آپ منتخب ہوجاوں گی تو میں نے اپلائی کیا اور میں منتخب ہوگئی، میرے شوہر کا تعاون اب بھی میرے ساتھ ہے گھر کے جو بھی مسائل ہوتے ہیں تو وہ خود انکو دیکھتے ہیں اور میری ساری توجہ میری دفتری ذمہ داریوں پرہے’ ثمینہ غنی نے بتایا۔

چیلنجز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زیادہ تر لوگ کہتے ہیں کہ سرکاری سکولوں کا رزلٹ اچھا نہیں آتا تو یہ بھی انکے لیے ایک چیلنج ہے لیکن وہ بھرپور کوشش کررہی ہیں کہ سرکاری سکولوں کی طالبات اچھے سے اچھا نتیجہ لائے۔ انہوں نے کہا کہ انکے پاس زیادہ تر بچیاں ایسی ہوتی ہیں جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں تو سکولوں میں تو وہ پڑھ لیتی ہیں لیکن گھر جاکر پھر انکی پڑھائی کی طرف توجہ نہیں ہوتی اور نہ ہی گھر والے اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ وہ بچوں سے پوچھیں کہ پڑھائی کیسی جارہی ہیں کیونکہ انکو دو وقت کی روٹی کی فکر ہوتی ہے۔

چاہ کربھی اپنے بچوں سے زیادہ قریب نہیں ہوسکتی

ڈی ای او پشاور ثمینہ غنی کا کہنا ہے کہ اب جب وہ گھر جاتی ہیں تو انکے بچے ان سے فرمائش نہیں کرتے جس طرح باقی بچے کرتے ہیں اور نہ ہی انکے بچے باقی بچوں کی طرح انکو دیکھ کے خوش ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انکے بچے چھوٹے تھے جب انہوں نے بطور ڈی ای او کام کرنا شروع کیا تو اس وجہ سے انہوں نے کئی ضلعوں میں کام کیا ہے جس کی وجہ سے انکے اور بچوں کے درمیان فاصلہ پیدا ہوگیا ہے کیونکہ وہ دوسرے ضلعے میں ہوتی تھی اور انکے بچے یہاں پشاور میں اور انکی ساری توجہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پرہوتی تھی اور اب چاہ کر بھی وہ اپنے بچوں کے زیادہ قریب نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم میں بہتری لانے کے لیے حکومتی اقدامات کے ساتھ وہ خود بھی باقاعدگی سے دور دراز کے علاقوں کا وزٹ کرتی ہیں اور تعلیمی اداروں میں پانی، بجلی، واش رومز، اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے اور باقی سہولیات کا جائزہ لیتی ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ بچیوں کو تمام سہولیات دے دیں تاکہ انکو پڑھنے میں دشواری نہ آئے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کیسے یہ خاتون اس عہدے تک پہنچی؟

انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے بچیوں کا کافی وقت ضائع ہوا ہے لیکن انہوں نے اس کو کور کرنے کی کوشش کی ہے جس کے لیے نہم اور دہم کی طالبات کے لیے ڈبل کلاسز کا اہتمام کیا گیا اس کے علاوہ جب وہ گھرپر بھی ہوتی تھی تو بچیوں کو ہوم ورک دیا جاتا تھا اور ساتھ میں اب سیشن کو اپریل تک بڑھادیا گیا ہے تو اس دوران بچیوں کی تیاری مکمل ہوجائے گی۔

ثمینہ غنی کے مطابق معاشرے کے لوگ درس و تدریس کے شعبے کو خواتین کے لیے اچھا سمجھتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو جلتے ہیں کہ کیسے یہ خاتون اس عہدے تک پہنچی اس کے علاوہ فیلڈ کے لوگ بھی بعض اوقات جلن محسوس کرتے ہیں جب کوئی اچھی کارکردگی دکھائے اور اس کو حاصلہ افزائی ملے۔

ڈی ای او پشاور نے کہا کہ اب لوگوں میں کسی حد تک لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے شعور آچکا ہے لیکن پھر اس حد تک شعور نہیں ہے جتنا ہونا چاہیئے’ میں جب پشاور کے نواحی علاقوں میں جاتی ہوں تو مجھے پتہ چلتا ہے کہ وہاں اب بھی لوگ لڑکیوں کی تعلیم میں دلچپسی نہیں رکھتے اور جب بچی پرائمری تک تعلیم حاصل کرلیتی ہے تو انکی شادی کرادیتے ہیں یا ویسے ہی سکول سے اٹھوا دیتے ہیں کہ لڑکی ہے اس نے تعلیم پہ کیا کرنا ہے لیکن انکو کون سمجھائے کہ تعلیم صرف نوکری کے لیے لوگ نہیں حاصل کرتے بلکہ اس سے انسان میں شعور آتا ہے اور اس کی بدولت وہ معاشرے کا کارآمد شخص بن سکتا ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت’

آخر میں پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچیوں کو تعلیم دے اور انکو وہ حقوق دے جنکی وہ حقدار ہیں کیونکہ خواتین کو باشعور بنانے سے آنے والی نسلیں باشعور ہونگی اور معاشرہ ترقی کی راہ پرگامزن ہوگا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button