خیبر پختونخواکھیل

پختون معاشرے میں لڑکیوں کو کھیلنے کی اجازت بہت مشکل سے ملتی ہے

 

آمنہ استمراج

مردان میں مرد کھلاڑیوں کے لئے شیخ ملتون میں قائم سپورٹس کمپلکس مکمل طور پر کھلا ہے لیکن عبدالولی خان یونیورسٹی میں خواتین کے لئے مخصوص جمنازیم کو پچھلے 4 مہینوں سے کورونا ایس او پیز کے نام پر بند کردیا گیا ہے جس پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔
خواتین کھلاڑی کہتی ہیں کہ ضلع میں ان کی فٹنس اور پریکٹس کے لئے واحد جمنازیم ہے لیکن انتظامیہ نے وہ بھی بند کردیا ہے جس کی وجہ سے نہ وہ اپنی فٹنس برقرار رکھ سکتی ہیں اور نہ ہی کھیلوں کے مقابلوں کے لئے پریکٹس کرپا رہی ہیں۔
مردان، بغدادہ سے تعلق رکھنے والی گل پری کرکٹ اور ہاکی کی کھلاڑی ہیں اور انہوں نے نہ صرف کئی صوبائی مقابلوں میں حصہ لیا ہے بلکہ ان دونوں کھیلوں میں وہ قومی سطح پر بھی کافی مشہور ہیں۔
گل پری کہتی ہیں کہ پچھلے چار، پانچ ماہ سےاس نے گھر میں ورزش کے زریعے اپنی فٹنس کو تو برقرار رکھا ہے لیکن پریکٹس کے لئے جگہ اور دوسرے کھلاڑی نہیں مل رہے جس کی وجہ سے کارکردگی متاثری ہونے کا شدید خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا ہمارے صوبے میں خواتین کو بہت مشکل سے کھیلنے کی اجازت ملتی ہیں اور پھر جب حکومتی سطح پر بھی وہ سہولیات یا توجہ نہیں دی جاتی جو اور صوبوں جیسے پنجاب میں خواتین کھلاڑیوں کو دی جاتی ہیں۔ایسے حالات میں ہمارے صوبے کے خواتین کا آگے جانا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔
پختون لڑکیوں کی کھیلوں میں عدم شرکت
گل پری کے مطابق خواتین کھلاڑی زیادہ تر انڈرو کھیل کو پسند کرتی ہیں، اسکی وجہ معاشرہ کا دباو ہے۔ پختون معاشرے میں لڑکیوں کو بہت مشکل سے اجازت ملتی ہیں، کیونکہ سپورٹس ایک ایسا شعبہ ہے، جہاں لڑکی کو زیادہ تر گھر سے باہر کئ دن تک رہنا ہوگا،یا اکثر گھر دیر سے بھی آسکتی ہے، پھر یہ چیز معاشرے کو ہضم نہیں ہوتی۔
اپنے بچیون کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے جس میں کھیل کو وہ کھیلنا پسند کرتی ہے اجازت دینی چاہئے، پھر بیٹی پر بھی ذمہ داری آتی ہیں کہ وہ والدین کا بھروسہ نہ تھوڑے۔ آج کی جو گل پری لوگوں کو کھیل کے میدان یا سکرین پر نظر آتی ہیں تو یہ سب گھر والوں کی بدولت ہے۔
ویسے بھی خواتین کے مقابلے کم ہوتے ہیں اور مردان میں خواتین کے لئے کھیل کی سہولیات بہت کم ہیں کمپلیکس بند ہونے کی وجہ پریکٹس اور فٹنس کافی حد تک متاثر ہوا ہے۔ایک تو پشتون معاشرہ میں خواتین بہت کم ہی کھیل کے میدان میں نظر آتی ہیں اور پھر اور صوبے کے مقابلے میں سہولیات اور توجہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔
حکومتی موقف
ضلع مردان بورڈ سپورٹس کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر آسیہ نور نے کہا کہ سپورٹس کمپلیکس میں خواتین کھلاڑیوں کے سالانہ مقابلے جاری تھے لیکن کورونا کی دوسری لہر کی وجہ سے بند کردی گئ ہے،جو کورونا کی صورت حال تھوڑے بہتر ہونے کی وجہ پھر منقعد ہونگے۔ ان سالانہ ایونٹ میں 11 کھیل جیسے بیڈمنٹن،ٹیبل ٹینس، کرکٹ،والی بال، باسکٹ بال،نیٹ بال ،ہینڈبال،فٹ بال ،ہاکی، ٹیگ آف وار اور ایتھلیٹس شامل ہیں۔ اس میں 3 ایونٹ ٹیبل ٹینس، ہینڈ بال اور بیڈ منٹن ہوچکے ہیں ۔
مردان کی لڑکیوں کا کھیلوں میں حصہ
مردان پشاور کے بعد دوسرا بڑا ضلع ہے، اور یہاں پر 2 سپورٹس کمپلیکس ہیں جس میں خواتین کے لئے وسائل کی کمی بہت افسوس کی بات ہے۔
مردان کی اسسٹنٹ کمشنر سحرش نگار بھی گل پری کی بات کی تائید کرتی ہیں کہ مردان سمیت پورے پشتون معاشرے میں خواتین کھلاڑیوں کی تعداد بہت کم ہیں، کوئی اچھا پرفارمنس تب کرسکتا ہے جہاں پر اسکی زیادہ دلچسپی ہوتی ہیں۔ اولیمپکس یا قومی اور بین الااقوامی کھیل کو اگر دیکھا جائے تو خواتین نے کافی نام کمایا ہے اسی طرح خیبرپختونخوا کی خواتین میں بھی کسی سے اہیلت میں کم نہیں ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ انکو وہ سہولیات یا مواقع نہیں ملتے۔
میڈیا کے زریعہ لوگوں میں لڑکیوں کے کھیل کے حوالے سے اگاہی مہم چلانا چاہئے اور معاشرے یا والدین کو سمجھایا جائے کہ لڑکیوں کا کھیلنا کوئی بری بات نہیں ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر سحرش نگار نے اعتراف کیا ہے کہ مردان میں خواتین کے کیھلوں کو فروغ دینے کے لئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ ڈی سی کی آفس کی جانب سے حال ہی میں سپورٹس گالہ منعقد کیا گیا تھا، جس میں کافی تعداد میں خواتین کھلاڑیون نے حصہ لیا تھا۔
مردان سپورٹس کمپلیکس بہت جلد کھول دیا جائے گا۔ اور اس میں سہولیات کی جو کمی ہے، اس کو پورا کیا جائے گا تاکہ کھلاڑی اپنا پریکٹس جاری رکھ سکے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button