خیبر پختونخواسٹیزن جرنلزمکورونا وائرس

پشاور کا خانم مارکیٹ، جس پر لاک ڈاؤن کا بھی کوئی اثر نہیں پڑا

 سلمیٰ جہانگیر

‘کورونا وبا کے پہلے لہر نے تو لنڈے کے کاروبار کو متاثر نہیں کیا لیکن دوسری لہر میں کافی نقصان ہونے کا خدشہ ہے
پشاور شہر خانم مارکیٹ کا واحد کاروبار جو کورونا وبا کی وجہ سے متاثر نہیں ہوا وہ لنڈا کا کاروبار ہے’
باجوڑسے تعلق رکھنے والافضل حسین پچھلے آٹھ سالوں سے پشاور میں لنڈے کا کام کر رہا ہے اور اسی سے ہی اپنے بال بچوں کا پیٹ پال رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کہا کہ کورونا کی پہلی لہر سے انکے کاروبار پر کوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ یہ مال باہر ملکوں سے اگست سے نومبر تک آتا ہے اور یہی اسکا سیزن ہے انکے پاس موجودہ مال پچھلے سال کا ہے لیکن فضل حسین نے اندیشہ ظاہر کیا کہ کورونا کی دوسری لہر انکے کاروبار کو متاثر کر سکتا ہے کیونکہ اس سال کورونا کے دنوں میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے اگست سے نومبر تک کوئی مال ایکسپورٹ نہیں ہوا اور وہ فکرمند ہے کہ اگر لنڈے کا مال ایکسپورٹ نہیں ہوا تو وہ کیا کرےگا کیونکہ اسکو اس کام کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں آتا۔
کورونا وبا کے دنوں میں لاک ڈاون کی وجہ سے تمام کاروبار متاثر ہوئے ہیں جسکی وجہ سے تمام ضروریاتی زندگی کے اشیا کافی مہنگی ہوگئی ہیں ان میں لنڈے کا سامان بھی شامل ہیں جن کی قیمت پچھلے سال کی نسبت دوگنی ہوگئ ہیں۔

خاتون خریدار کلثوم بی بی جو پانچ بچوں کی ماں ہے کہتی ہیں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے لنڈے کا سامان مہنگا ہو گیا ہے لیکن اسکی نسبت نیا سامان بھی مہنگا ہو گیا ہے جسکو خریدنا ان جیسے غریب لوگوں کے بس کی بات نہیں. لنڈے کا فائدہ یہ ہے کہ اسکی کوالٹی اچھی ہوتی ہے مشین میں دھونے سے جلدی خراب بھی نہیں ہوتے اگر بچوں کے لئے ایک نیا خریدتے ہیں تو لنڈے سے اسی قیمت پر دو اور بھی خرید لیتے ہیں کیونکہ بچوں کا ایک یا دو سوئیٹر سے گزارہ نہیں ہوتا اور نئے خرید نہیں سکتے۔
دوسری جانب عبدالکریم جسکا تعلق ضلع مومند سے ہے اور پشاور کوہاٹی بازار میں لنڈے کا سامان بیجتا ہے نے بتایا کہ کورونا کی وجہ سے لنڈے کی چیزیں مہنگی ہو گئی ہیں پہلے جو سویٹر تین سو روپے میں ملتا تھا اب اسکی قیمت چھ سو روپے تک ہو گئ ہے اور اسی طرح چھ سو کا سویٹر بارہ سو تک کا ملتا ہے لیکن مہنگائی کے باوجود خریداروں میں کمی نہیں آئی اور پچھلے سال کی طرح اس سال بھی بازاروں میں رش دکھائی دے رہا ہے۔
عبدالکریم نے بتایا کہ یہاں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ خریداری کے لیے آتے ہیں جس میں مڈل اور ھائی کلاس لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔
‘ ہم غریب لوگ ہیں اگر کباڑ نہیں ہوتا تو ہم جیسے غریب لوگ تو سردیوں میں سردی سے مرجاتے’ یہ کہنا ہے پشاور شہر کی عمر رسیدہ خاتون شرین کا جو کوہاٹی خانم مارکیٹ میں اپنے لیے لنڈے کے شوز اور سوئیٹر خریدنے آئی ہیں ۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ کافی پرانی مارکیٹ ہے اور پچھلے 15 سال سے اسی بازار سے چیزیں خریدتی ہیں نا صرف سوئیٹر یا شوز بلکہ موزے بھی کافی پائیدار ہوتے ہیں جو زیادہ دھونے یا استعمال سے خراب نہیں ہوتے۔ نئے موزے تو ایک سیزن تک نہیں چلتے لیکن لنڈے سے خریدی ہوئے موزے آرام سے 2 یا 3 سال تک چلتے ہیں۔
شرین کہتی ہیں کہ اللہ کا ان جیسے غریبوں لوگوں پر رحم تھا جسکی وجہ سے فلحال اس کاروبار کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور آگے بھی اللہ مالک ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button