خیبر پختونخوا

روایات یا سہولیات کی عدم دستیابی، منڈران کلاں کی بچیاں تعلیم سے محروم کیوں؟

 

سی جے ممانڑا آفریدی
بچیوں سے ذیادتی کے واقعات میں اضافہ کے بعد میں نے اپنی آٹھ سالہ بیٹی فاطمہ کو سکول بھیجنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں بچیوں کو لڑکوں کے سکول میں بھیجنا بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے۔ ایسا کہنا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی یونین کونسل منڈران کلاں کے گاوں بستی دربار کی رہائشی 42 سالہ نیاز بی بی کا جو علاقے میں تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے باعث اپنی بچیوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔
گاوں میں لڑکیوں کا سرکاری سکول نہ ہونے کے باعث متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والی 80 سے زائد طالبات بستی دربار میں قائم گورنمنٹ پرائمری سکول برائے طلبہ میں لڑکوں کے ہمراہ تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔
نیاز بی بی کہتی ہیں کہ علاقے میں لڑکیوں کا سرکاری سکول نہ ہونے کے باعث لڑکیوں کی اکثریت تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں کیونکہ گاوں کے بیشتر لوگ غریب ہیں اور اپنی بچیوں کو پرائیویٹ سکول بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ کیونکہ سکول کے اخراجات کے ساتھ ساتھ انہیں ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
250 گھرانوں پر مشتمل اس گاوں کی 200 سے زائد بچیاں سرکاری سکول نہ ہونے کے باعث تعلیم کے بنیادی حق سے بھی محروم ہیں۔
مقامی صحافی سمیرا لطیف کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو سکول نہ بھیجنے کی وجہ مالی وسائل کی عدم دستیابی نہیں بلکہ ان علاقوں کی سماجی روایات اور لڑکیوں کے حوالے سے امتیازی رویہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے یہاں لوگ اپنے لڑکوں کی تعلیم پر جس طرح توجہ دیتے ہیں، بچیوں کے معاملے پر لوگ غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لڑکوں کو اچھے سکولوں میں داخل کراتے ہیں جبکہ لڑکیوں کو سکول نہ ہونے ، معاشی روایات یا مالی تنگدستی کو جواز بنا کر گھر بیٹھا لیا جاتا ہے۔
سمیرا کہتی ہیں کہ تعلیم کا حصول ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور حکومت کو چاہئے کہ وہ صنفی تفریق سے بالاتر ہوکر بچیوں کی تعلیم کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرے۔
سماجی تنظیم کی رہنما غلام فاطمہ کہتی ہیں کہ علاقے میں بچیوں کا سکول نہ ہونے کے معاملے پر انہوں نے 2018 میں ڈسٹرک ایجوکیشن آفیسر ڈیرہ اسماعیل خان سے ملاقات کی تھی جس کے بعد لڑکیوں کو لڑکے کے سکول میں بھیجنے کی اجازت دی گئی تھی۔ یہ اجازت ملنے کے بعد 100 کے قریب لڑکیوں نے لڑکوں کے پرائمری سکول میں داخلہ لیا لیکن بہت سی لڑکیاں آج بھی الگ سکول نہ ہونے کے باعث تعلیم کے حصول سے محروم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ حکام اور منتخب نمائندوں سے بار بار مطالبہ کرنے کے باوجود اس علاقے میں لڑکیوں کے سکول کے قیام کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
ماہر تعلیم خادم حسین نے ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلہ صرف سکول نہ ہونا نہیں بلکہ یہاں کے معاشرتی روایات اور عوام کی ذہنیت ہے۔ یہاں لوگ اپنا فائدہ دیکھ کر بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکا چونکہ خاندان کا مستقل فرد ہوتا ہے اس لئے اس کی تعلیم پر سرمایہ کاری خاندان کا فائدہ پہنچا سکتی ہے جبکہ لڑکیوں نے ایک روز دوسرے گھر جانا ہوتا ہے اس لئے لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کرنا بےکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ بچیوں کو تعلیم دلوانے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
آٹھ سالہ فاطمہ کے والد کہتے ہیں کہ اپنی بچی کو لڑکوں کے سکول نہیں بھیج سکتے۔ اگر حکومت ان کے گاوں میں لڑکیوں کے لئے الگ سکول قائم کردیں تو نہ صرف وہ بلکہ گاوں کے بہت سے والدین اپنی بچیوں کو سکول بھیجیں گے۔
صوبائی وزیر تعلیم اکبر ایوب خان کے مطابق مالی سال 21-2020 میں تعلیمی کے لئے مجموعی طور پر 30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ گزشتہ سال 89 نئے سکول تعمیر اور اپ گریڈ کئے گئے ہیں۔ اسی طرح 5 ہزار سے زائد طالبات کے لئے 122 کیمونٹی سکول قائم کئے گئے ہیں۔ اسی طرح 150 سکولوں میں کھیلوں کے میدان تعمیر کئے گئے ہیں۔
انہوں نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ آئندہ سال 100 نئے پرائمری سکول تعمیر کئے جائیں گے جبکہ 6 ارب رورپے کی لاگت سے مجموعی طور پر 210 پرائمری، مڈل اور ہائی سکولوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ بچوں کو وطائف دینے کے لئے ساڑھے تین ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے۔ جبکہ مڈل اور ہائی سکولوں میں آئی ٹی لیبارٹریز کی تعمیر کےلے 488 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ صوبائی وزیر تعلیم کے مطابق آئندہ مالی سال کے دوران ضم شدہ اضلاع میں ایک کیڈٹ کالج بھی تعمیر کیا جائے گا جبکہ دس ہزار اساتذہ کو بھرتی کرکے سکولوں میں اساتذہ کی کمی کو دور کیا جائے گا۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button