صحت

شمالی وزیرستان: شناختی کارڈ کی عدم موجودگی میں خواتین ویکسین لگانے سے محروم ہیں

عابد اقبال

خیبرپختونخوا کی دیگر اضلاع کی طرح شمالی وزیرستان میں بھی عوام کو محفوظ رکھنے کیلئے کورونا ویکسین کا عمل شروع کیا گیا ہے لیکن محکمہ صحت کے حکام کے مطابق مردوں کی نسبت خواتین میں ویکسین لگانے کا رجحان بہت کم ہے جن میں کورونا ویکسین کے مراکز کی کم تعداد، شناختی کی عدم دستیابی اور خواتین میں شعور کی کمی بتائی جاتی ہے۔

شمالی وزیرستان کے ایک گاؤن عمزونی سے تعلق رکھنے والی خاتون ختمینہ نے بھی اپنے شوہر کے اصرار پر ویکسین لگائی۔ ختمینہ کہتی ہے کہ انکے گاؤں میں اب بھی بیشتر خواتین ایسی ہیں کہ انہوں نے ویکسین نہیں لگائی ہوئی۔

"کورونا ویکسین لگانا ضروری ہے کیونکہ آپ عمرے یا حج پر نہیں جاسکتے اور میں حج پے جا رہی تھی تو اسکے بغیر جانا ممکن ہی نہیں تھا اسلئے میں نے ویکسین لگائی”۔

ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میران شاہ کے حکام کا کہنا ہے کہ خواتین میں ویکسین لگانے میں دلچسپی بہت کم دیکھنے میں نظر آتی ہے اور اسکی بڑی وجہ خواتین میں شعور کی کمی ہے۔

ڈی ایچ کیو میران شاہ کی لیڈی ہیلتھ ورکر عائشہ نے ٹی این این کو بتایا ” میں نے پڑھی لکھی خواتین کو بھی دیکھا ہے جو کورونا ویکسین کے خلاف افواہوں پر یقین رکھتے ہیں لہذا حکومت کو چاہئے خصوصی طور پر خواتین کیلئے کوئی ورکشاپس یا سیمینار منعقد کرائیں تاکہ وہ اس بات کو سمجھے کہ ویکسین لگانا جان بچانے کیلئے کتنا ضروری ہے”۔

مگر دوسری جانب سے کورونا وبا کے متعلق افواہوں اور شعور کی کمی کے علاوہ حکومت کی جانب سے صحت کے مراکز میں عدم سہولیات بھی خواتین کی ویکسین لگانے میں بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔

دتہ خیل سے تعلق رکھنے والے انور خان بھی چاہتے ہیں کہ وہ اپنی خواتین کو ویکسین لگائیں لیکن جب خواتین ہسپتال میں آتی ہیں تو ویکسین سنٹروں کی کمی کی وجہ سے وہ کئی گھنٹوں تک انتظار کرتی ہیں جس کی وجہ سے وہ گھر بغیر کسی ویکسین ڈوز لگائے چلی جاتی ہیں۔

انور خان کہتے ہیں ” خواتین کو ویکسین لگانے کیلئے کئی گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے اگر حکومت کوئی ایسا طریقہ کار اختیار کرے کہ گاؤں میں موبائیل ویکسین ٹیمز تعینات کرے تو اس سے خواتین استفادہ حاصل کر سکیں گی۔

شمالی وزیرستان میں محکمہ صحت کی جانب سے مقررہ فوکل پرسن ڈاکٹر فرید ضلع بھر میں موبائیل ٹیمز کی کمی کی تائید کرتے ہیں کہتے ہیں کہ سکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں موبائیل ٹیمز آزادانہ حرکت نہیں کرسکتے ہیں۔

ڈاکٹر فرید کہتے ہیں ” شمالی وزیرستان کے حالات ایسے ہیں کہ ہم اونچی سطح پر خواتین موبائل ٹیمز کی تعیناتی نہیں کرسکتے لیکن اگر کہیں سے خواتین مطالبہ کریں تو ہم پورے احتیاط کے ساتھ اپنے موبائیل ٹیمز وہاں پر بھجواتے ہیں، مثلاً خواتین کے سکولوں اور مدارس میں ہم اپنی ٹیمیں بھجوا دیتے ہیں۔ دوسرا شمالی وزیرستان میں ہم ایک اور مسئلے سے دوچار ہیں جہاں پر بیشتر خواتین کے پاس شناختی کارڈز نہیں ہوتے لیکن اب ہمیں اجازت ملی ہے کہ انکے شوہر یا والد کے شناختی کارڈ پر ہم انہیں ویکسین لگاتے ہیں”۔

فوکل پرسن ڈاکٹر فرید نے ویکیسنیٹڈ افراد کے اعداد و شمار کے بارے میں بتایا کہ اب تک پورے ضلع میں ایک لاکھ 88 ہزار افراد کو ویکسین لگائی جاچکی ہیں جن میں35 ہزار کے قریب خواتین شامل ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button