صحت

"مجھے معلوم نہیں میری عمر ویکسین لگانے کی ہے یا نہیں ؟”

عبدالقیوم/ وقاص الرحمن

حکومت نے ملک بھر میں بارہ سال سے زائد عمر کے بچوں کو کورونا ویکسین لگانے کا عمل شروع کردیا ہے جس کے پہلے مرحلے میں سکول میں پڑھنے والے بچوں کو ویکسین لگائی جارہی ہیں جبکہ بعد میں سکولوں سے باہر مستری خانوں، کارخانو اور چوراہوں پر کام کرنے والے بچوں کو ویکسینیٹ کیا جائیگا۔

کورونا وبا پر نظر رکھنے والا قومی ادارہ نیشنل کمانڈ اینڈ اپریشن سنٹر (این سی او سی) کے سربراہ اور وفاقی وزیرمنصوبہ بندی اسد عمر نے 12 ستمبر کو ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ حکومت نے فیصلے کیا کہ 12 سے زائد عمر کے بچوں کو کورونا ویکسین لگانا شروع ہوجائیں گے۔

شہر پشاور میں موٹر سائیکل کی ورکشاپ میں کام کرنے والا پندرہ سالہ حمزہ سکول نہیں جاتا اور اپنی غریب کی وجہ سے مستری خانہ میں مزدوی کرتا ہے۔ ٹی این این سے بات کرتے ہوئے حمزہ نے بتایا کہ انہیں کورونا وبا کے بارے میں علم ہے تاہم وہ نہیں جانتا کہ انکی عمر ویکسین لگانے کی ہے یا ہیں؟

حمزہ کے استاد عنایت کے ساتھ ایک اور بچہ بھی ورکشاپ میں کام کرتا ہے لیکن عنایت نہیں جانتا کہ ان کے شاگردوں کو کب اور کیسے ویکسین لگائی جائی گی۔

عنایت کے بقول انہوں نے خود اور ان کے خاندان والوں نے ویکسین لگائیں ہیں اور نادرا سے کورونا سرٹیفیکٹ بھی حاصل کئے ہیں تاہم وہ کہتے ہیں کہ باہر کام کرنے والے بچوں میں ایک کو بھی ویکسین نہیں لگائی گی۔

مستری خانہ میں کام کرنے والے بچے حمزہ کے والد راشد خان مستری خانہ میں اپنے بچے کی حال احوال معلوم کرنے کیلئے آتے ہیں، کہتے ہیں کہ انکے دو بچے مستری خانہ می کام کرتے ہیں اور اسکی وجہ انکی غربت اور بیماری ہے اسلئے وہ انکے ذریعے محنت مزدوری کرتے ہیں۔

عنایت خان نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ انکے بچوں کو اب تک ویکسین نہیں لگائے گئے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ صبح اپنے گھر سے نکلتے ہیں اور رات کو واپس گھر لوٹتے ہیں۔ لیکن انکے گھر میں اب تک کورونا ویکسین لگانے والی ٹیم بھی نہیں آئی ہے جس کی وجہ سے انکی فیملی کو بھی ویکسین نہیں لگائی گئی ہے۔

کورونا ویکسین کے بارے میں بچوں کو معلومات فراہم کرنے کیلئے خیبرپختونخوا میں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے عمران ٹکر نے ایک مہم شروع کیا ہوا جس میں اُن بچوں کو ویکسین کی اہمیت اور اپنی زندگی کی تحفظ کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔

عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ بچوں کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں میں اکثر بچے نظر انداز ہوتے ہیں۔ انکے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ملک میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہوجائے تو اسکے لئے تعلیمی ماحول فراہم کرنا نہایت ضروری ہے۔

عمران ٹکر کہتے ہیں کہ اکثر دیکھنے میں آیا کہ جب بھی بچوں کیلئے حکومتی پالیسی اعلان کیا جاتا ہے تو اس پالیسی کا نفاذ پہلے سکولوں سے شروع ہوجاتی ہے اسلئے ضروری ہے کہ اگر بچوں کو سکولوں کے اندر داخل کرایا جائے تو وہ حکومتی پالیسیوں سے باخبر رہیں گے۔

خیبرپختونخوا کے محکمہ تعلیم سیکنڈری اینڈ ایلمنٹری ایجوکیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صوبہ بھر میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد 23 لاکھ کے قریب ہیں لیکن پشاور کمشنر ڈویژن کے ترجمان فیروز شاہ کے مطابق صوبہ بھر میں بچوں کی ویکسینیشن کا عمل مرحلہ وار جاری ہے۔

اُن کے مطابق پہلے مرحلے میں سکولوں کے بچوں کو ویکسین لگائیں جائیں گے جبکہ دوسرے مرحلے میں گھروں، ورکشاپس اور چوراہوں پر کام کرنے والے بچوں کو ویکسینیٹ کیا جائے۔

انکا کہنا ہے کہ محکمہ صحت کی بنائے گئے ٹیمز کو ہدایات کئے گئے ہیں کہ اگر گھروں پر بارہ سال سے اٹھارہ سال تک بچے موجود ہو تو انہیں بھی ویکسین لگائی جائے، اسکے علاوہ ایک ہفتہ بعد پولیو مہم کی طرح بازاروں ، چوراہوں اور مستری خانوں میں بھی کمپین شروع ہوگا۔

اس حوالے سے  نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر ( این سی او سی) کے فوکل پرسن  سکندر بخت نے ٹی این این کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ جس بچے کا فارم ب موجود ہو تو کورونا ویکسین لگانے کیلئے رجسٹریشن کا طریقہ کار وہی ہے جیسے بڑوں کیلئے وضع کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کے فارم ب میں شناختی کارڈ کی طرز پر درج نمبر 1166 پر بھیج کر ویکسین کئلئے خود کو رجسٹرڈ کروا سکتے ہیں۔

سکندر بخت کہتے ہیں کہ انکے معلومات کے مطابق خیبر پختونخوا میں 80 سے 90 فیصد تک بچوں کے فارم ب نہیں بنے ہیں۔  لیکن اسکے لئے ہم نے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیا ہے جس کے مطابق بچوں کو لگائی جانے والی فائزر ویکسین انکے والدین کے شناحتی کارڈ نمبر پر لگوائی جائے گی ۔

افغان بچوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ افغانی بچوں یا بچیوں  کو پی او آر کارڈز کی بنا پر ویکسین کی خوراکیں لگائی جائی گی لیکن جن کے پاس پی او آر کارڈز نہیں ہیں تو انکو پاسپورٹ نمبر کے ذریعے ویکسین لگائی جائی گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button