طبلہ نوازی کو جدت بخشنے والے ولی داد استاد طویل علالت کے بعد چل بسے
استاد نذیر گل کے مطابق گلنار بیگم اپنے دور میں استاد ولی داد کے بغیر ںغمہ سراء ہی نہ ہوتیں اور کہتیں کہ استاد کے طبلے کے بغیر ان کی موسیقی پوری نہیں ادھوری ہے۔

عثمان خان سے
خیبرپختونخوا موسیقی کے حوالے سے ایک زرخیز علاقہ گردانا جاتا ہے کہ اس مٹی نے دنیائے موسیقی کو ایسے روشن ستارے دیے جنہوں نے چار دانگ عالم میں یہ پیغام پہنچایا کہ پختون امن پسند اور ساز و آواز کا شوق و شغف رکھنے والے لوگ ہیں۔
خیبرپختونخوا کی موسیقی کے افق پر چمکتے ان ستاروں میں سے ایک ولی داد استاد بھی ہیں طبلہ نوازی کی دنیا میں جن کا کوئی ثانی نہیں تھا، ان کے ہم عصر نامور اساتذہ اور موسیقی کے دلدادہ لوگوں کے بقول ولی داد استاد جب طبلہ بجانے بیٹھتے تو طبلہ زمین میں جگہ بنا لیتا اور اگر کھڑے ہوتے تو ان کے تلوے زمین میں گڑھے بنا لیتے۔
"تمبل پہ شڑک وھہ محبوبی
سبا بہ گورم ستا د گوتو پرھرونہ”
ہارمونیم کے نامور استاد نذیر گل کے مطابق اندرون یا بیرون ملک جب کبھی طبلہ نوازی کا ذکر ہوگا تو ولی داد استاد کے تذکرے کے بغیر ادھورا ہی ہو گا۔
بقول ان کے 60 اور 70 کی دہائی میں جب پشتو فلم ترقی کے بام عروج پر تھی تو استاد ولی داد کا تین تین، چار چار ماہ انتظار کیا جاتا کہ انہیں فرصت ہو اور موسیقی ریکارڈ کروائی جا سکے۔
استاد نذیر گل کے مطابق گلنار بیگم اپنے دور میں استاد ولی داد کے بغیر ںغمہ سراء ہی نہ ہوتیں اور کہتیں کہ استاد کے طبلے کے بغیر ان کی موسیقی پوری نہیں ادھوری ہے۔
مرحوم ولی داد استاد نے 1949 میں پار ہوتی مردان کے ایک موسیقار گھرانے میں آنکھیں کھولیں، موسیقی کی ابتدائی تعلیم تو گھر پر اپنے والد استاد فقیر داد سے ہی پائی تاہم موسیقی سے لگاؤ اور شوق ایسا پایا کہ گھر بار اور بستی چھوڑ کر اسی دنیا کے راہی بن گئے شاید اسی لیے پشتو موسیقی اور وہ خود ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہی سمجھے جاتے ہیں۔
فن و ادب کے ہردم گن گانے والے سینئر کلچر رپورٹر شیر عالم شینواری کے مطابق مرحوم ولی داد استاد نے امریکہ و یورپ سمیت دنیا کے 25 ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور داد سمیٹی۔
بقول ان کے مرحوم کو یورپ و امریکہ میں کئی بار اعلیٰ مراعات اور مستقل رہائش کی پیش کشیں کی گئیں لیکن اپنے لوگوں اور پشتو موسیقی کی محبت اور خدمت کی غرض سے وہ ہر پیشکش ٹھکراتے رہے، طبلے کی زبان سے اپنی مٹی کی خدمت کی اور آخری سانس تک یہ ساتھ چھوٹنے نہیں دیا۔
استاد کی وفات پر پشتو زبان کے فنکاروں اور شعراء افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے پشتو موسیقی کیلئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیتے ہیں۔
معروف ادیب اکبر سیال ولی داد استاد کی وفات کے حوالے سے افسوس سے کہتے ہیں کہ ان کا طبلہ تاقیامت سنا تو جائے گا لیکن کسی کو یہ معلوم نہ ہوگا کہ طبلہ نواز ولی داد استاد ہیں۔
مرحوم ولی داد استاد نے بھی استاد میاں شوکت حسین، استاد اللہ رکھا خان، ذاکر حسین، تاپو اور تاری صاحب جیسے بیشتر موسیقاروں کو جلاء بخشنے والے میاں قدر بخش گھرانے (پنجاب) سے استفادہ کیا اور میاں قادر بخش کے بھانجے خلیفہ اختر حسین سے موسیقی کی تربیت لی۔
استاد نذیر گل کے مطابق عاجزانہ و فقیرانہ سی طبیعت کے مالک اس انسان نے طبلہ نوازی کو ایسی جدت بخشی اور ایسے تال، آہنگ اور ردھم ایجاد کیے کہ آج ان کے بغیر پشتو موسیقی ادھوری سمجھی جاتی ہے۔
16 اکتوبر کو ولی داد استاد ایک طویل علالت کے بعد اس فانی دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کوچ کر گئے، پشاور رنگ روڈ پر ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں فن و ادب سے تعلق رکھنے والے افراد اور فنکاروں نے کثیر تعداد میں شرکت کی لیکن افسوس کہ حکومت یا محکمہ ثقافت کے کسی اہلکار کو اس کی توفیق نہ ملی یا شاید انہیں سرے سے احساس ہی نہیں۔
خیبرپختونخوا کے فنکار مگر دنیا کے کسی بھی فنکار کی طرح حساس بہت ہیں جنہیں اس موقع پر اس کا احساس اور تاسف ضرور رہا کہ جیتے جی ہر تقریب ان کی شرکت کے بغیر ادھوری ہوتی ہیں لیکن علالت یا وفات پر ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
مرحول ولی داد استاد دس سال کے تھے جب دنیائے موسیقی میں قدم رکھا اور اپنی زندگی کی 65 بہاریں اسی کے نام کر دیں۔
مرحوم کے پسران میں چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں جن میں سے دو بیٹے اپنے والد کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، ناصر داد طبلہ نواز تو قیصر داد مشہور کی بورڈ استاد ہیں۔
آخر میں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک سے ایوارڈز و اعزازات سمیٹنے والے ولی داد استاد کو مگر تادم مرگ اگر کوئ قلق رہا تو یہی کہ ان کے اپنے ملک نے کبھی ان کی دلجوئی یا توقیر و دادرسی نہیں کی۔