انٹرٹینمنٹفیچرز اور انٹرویو

"کہا مانو گی تو بہت آگے جاؤگی”

ٹی این این کے ساتھ ایک خصوصی نشست کے دوران حریم خان کا کہنا تھا کہ گلوکاری سے قبل وہ ماڈلنگ کرتی تھیں لیکن شوق گانے کا تھا اس لیے ایک پروڈیوسر سے رابطہ کیا جس نے پہلا ہی گانا ریکارڈ کرانے کے بعد کہا کہ تمہارا یہ گانا تبھی ریلیز کیا جائے گا جب تم میرے ساتھ جنسی تعلق قائم کروگی۔

ناہید جہانگیر

"میں نے جب پہلا گانا ریکارڈ کرایا تو پروڈیوسر نے اس کی ریلیز کے لیے جنسی تعلقات قائم کرنے کی شرط رکھی، اس نے کہا کہ ایسا کروگی تو نہ صرف تمہارا گانا ریلیز کر دیا جائے گا بلکہ بہت آگے بھی جاؤگی اور اگر ایسا نہیں کروگی تو گانا ریلیز ہی نہیں ہوگا۔”

یہ باتیں ڈیڑھ سال قبل گلوکاری کا پیشہ اختیار کرنے والی اور صرف اپنی اہلیت کی بنا پر اس میدان میں نام و مقام پیدا کرنے والی حریم خان کی ہیں۔

ٹی این این کے ساتھ ایک خصوصی نشست کے دوران حریم خان کا کہنا تھا کہ گلوکاری سے قبل وہ ماڈلنگ کرتی تھیں لیکن شوق گانے کا تھا اس لیے ایک پروڈیوسر سے رابطہ کیا جس نے پہلا ہی گانا ریکارڈ کرانے کے بعد کہا کہ تمہارا یہ گانا تبھی ریلیز کیا جائے گا جب تم میرے ساتھ جنسی تعلق قائم کروگی۔

حریم خان کے بقول ان کی جانب سے انکار پر انہیں دھمکی بھی دی گئی کہ بات نہ مانی تو گانا ہی سرے سے ڈیلیٹ کر دیا جائے گا۔

گلوکارہ کے مطابق انہوں نے پروڈیوسر کو صاف صاف بتا دیا کہ جو کرنا ہے کر لو لیکن اس کا ناجائز مطالبہ کبھی پورا نہیں ہو گا۔

کہتی ہیں کہ کسی بھی لڑکی کو شوبز میں پہلا قدم رکھتے ہی اس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پروڈیوسر آتے ساتھ ہی جنسی تعلقات قائم کرنے کی شرط رکھ دیتے ہیں ایسے میں بعض لڑکیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو کم وقت میں مشہور ہونا چاہتی ہیں جس کیلئے وہ ہر قیمت ادا کرنے کو تیار بھی ہوتی ہیں اور ایسی ہی لڑکیوں کا جنسی استحصال ہوتا ہے جو بڑی آسانی سے اپنی عصمتیں گنوا بیٹھتی ہیں۔

حریم خان کہتی ہیں کہ اللہ نے ہر لڑکی کو اپنی عزت و عصمت کی رکھوالی کا شعور دیا ہے اور قدرت کی شان کہ غلط و صحیح، سیدھی و ٹیڑھی نگاہ کی تمیز بھی تو پھر شہرت کیلئے کوئی کیوں اپنی عزت داؤ پر لگائے، قدرت نے اگر ٹیلنٹ دیا ہے، آپ کے پاس فن ہے تو خود کو بیچنے کی کیا ضرورت فن اور ٹینت اپنی راہ خود ہی نکال لیں گے اور وہ وقت دور نہیں جب دیگر فنکاروں کی طرح آپ کو بھی اعلی مقام نصیب ہو گا۔

"اپنے پرستاروں اور چاہنے والوں کو ہم اپنے گانوں سے محظوظ کروا سکتی ہیں تو اس کیلئے شارٹ کٹ راستہ نہیں اپنانا چاہیے۔

(ہالی ووڈ اور بالی ووڈ میں اس قبیح فعل کیلئے کاسٹنگ کاؤچ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، رواں برس ہاروے وینسٹین جیسا ہالی ووڈ کا بڑا نام اسی باعث خاصا بدنام ہوا ہے جو اس وقت جیل میں جبکہ یہ سکینڈل سوشل میڈیا پر "می ٹو موومنٹ کا باعث بھی بنا تھا جس میں ہالی ووڈ و بالی ووڈ سے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے سیاست سمیت مختلف شعبوں سے وابستہ خواتین نے حصہ لیا اور اکثر نے اپنے اپنے تجربات شیئر کیے۔)

Mandatory Credit: Photo by Seth Wenig/AP/REX/Shutterstock (9747345b)
Harvey Weinstein arrives to court in New York, . Weinstein, who was previously indicted on charges involving two women, was due in court on Monday for arraignment on charges alleging he committed a sex crime against a third woman
Sexual Misconduct Harvey Weinstein, New York, USA – 09 Jul 2018

حریم خان کوئی پہلی فنکارہ نہیں جس کے آگے چانس کے بدلے جنسی تعلقات قائم رکھنے کی شرط سامنے رکھی گئی ہو بلکہ بہت ساری ایسی گلوکارائیں ہیں جو اس قسم کے حالات کا سامنا کر چکی ہیں۔

ایسی ہی ایک نامور گلوکارہ نے نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر ٹی این این کو بتایا کہ غربت و افلاس کے باعث بچپن ہی سے انہوں نے گانا شروع کیا۔

ٹی این این کے ساتھ بچپن کا ایک واقعہ شیئر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ والد نے ان کیلئے ایک استاد رکھا تھا جو انہیں گانے کی تربیت کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت سکول کا سبق بھی پڑھاتے تھے لیکن والد کی عدم موجودگی میں بارہا اس نے اخلاقیات سے گری حرکتیں کیں، اللہ کا فضل و کرم کہ باوجود کوشش کے کبھی مجھے زیادتی کا نشانہ بنانے کا اسے موقع نہیں ملا۔

کہتی ہیں کہ جب ریکارڈنگز کیلئے باقاعدہ سٹوڈیوز جانا شروع کیا تو کئی مرتبہ پروڈیوسرز نے انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی جو کہا کرتے کہ اگر دبئی میں شوز کیلئے جانا چاہتی ہو تو ہماری بات ماننا پڑے گی کیونکہ جنسی تعلق کے بغیر کوئی بھی گلوکارہ آگے نہیں جا سکتی۔

نامور گلوکارہ نے بتایا کہ پروڈیوسرز ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی بعض بااثر اور طاقتور شخصیات بھی ہمارے فن سے لگاؤ نہیں رکھتیں بلکہ ہمارے حسن پر فدا اور ہمیں جنسی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔

دوسری جانب گزشتہ تیرہ سال سے پاکستان ٹیلی ویژن پشاور سے بطور پروڈیوسر پروگرامنگ وابستہ قاضی جنید نصیر نے بھی ٹی این این کے ساتھ گفتگو کے دوران گلوکاراؤں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس کے پیچھے کچھ وجوہات ہیں جن میں پہلی وجہ تربیت کی ہے خواہ وہ کسی مرد کی ہو یا خاتون کی، جو لوگ خواتین کو ہراساں کرتے ہیں انہیں یہ تربیت نہیں ملی ہوتی کہ مرد و خواتین میں مساوات یا برابری کیا ہوتی ہے؟، دوسری بات یہ کہ بعض مردوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے الفاظ یا حرکتوں سے کس طرح خواتین کو ہراساں کررہے ہیں، اس کے علاوہ گلوکاری کا شوق رکھنے والی بعض خواتین کم تعلیم یافتہ ہوتی ہیں جنہیں اتنا شعور نہیں ہوتا جو ضروری ہوتا ہے اس لیے مرد انہیں بڑی آسانی سے ورغلا لیتے ہیں۔

قاضی جنید نصیر کے مطابق جو لڑکیاں گلوکاری کا پیشہ اختیار کرتی ہیں وہ شوق سے نہیں بلکہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس پیشے میں آتی ہیں ایسے میں بعض لوگ ان کی اس مجبوری کا ناجائز فائدہ لیتے ہوئے بڑی آسانی سے ان کا استحصال کر لیتے ہیں۔

"گلوکارائیں سوچتی ہیں کہ اگر وہ کسی سے شکایت کریں گی تو اول تو ان کی فریاد ہی نہیں سنی جائے گی اور اگر سنی بھی جائے گی تو الٹا بدنامی انہی کے حصے میں آئے گی۔”

پی ٹی وی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ریاستی ادارہ ہے اور یہاں اس قسم کی شکایات نہ ہونے کے برابر ہیں، ایک تو وہاں جابجا آگاہی بورڈ لگے ہیں، دوم یہ کہ ایسی کوئی بات ہو بھی جائے اور کوئی شکایت کرے تو اس کیخلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے جبکہ شکایت درست ثابت ہونے کی صورت ملزم نوکری سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، پی ٹی وی میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود ہے۔

قاضی نصیر کے مطابق اس طرح کے واقعات اکثر نجی صنعت میں ہی سامنے آتے ہیں کیونکہ وہاں اس قسم کی شکایات سننے کیلئے مناسب فورم ہی نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ وہاں سے گلوکاراؤں کی حراسانی یا استحصال کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جنسی ہراسانی کے واقعات کے صرف شوبز انڈسٹری ہی نہیں ہر اس ادارے پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جہاں عزت وتکریم دینے کی بجائے انہیں غلط و ناجائز مطالبات پوری کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

بقول ان کے ہمارے معاشرے میں ویسے بھی خواتین کو نوکری یا روزگار کے سلسلے میں گھر کی دہلیز پار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور جب ان کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جانے لگے تو ایسے حالات میں دیگر اداروں کی طرح شوبز کی صنعت بھی متاثر ہوگی۔

قاضی جنید نصیر کے مطابق وہ مانتے ہیں کہ گلوکاراؤں کو جنسی ہراسانی کا سامنا ہے لیکن یہ المیہ صرف ہمارے معاشرے تک نہیں محدود بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی شوبز سے وابستہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button