فیچرز اور انٹرویو

اپنی موسیقی اپنے ساز بھی فراموش نہ کیے جائیں۔ استاد نذیر گل

استاد نذیر گل کو موسیقی ورثے میں ملی ہے ان کے والد استاد خائستہ گل اپنے دور کے نامور طبلہ نواز تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ ان کا سکول میں کبھی دل نہیں لگا کہ موسیقی ہی ان کی خمیر میں گندھی ہوئی، ان کے رگ و پے میں رچی بسی ہوئی اور موسیقی ہی میں نام پیدا کرنا ان کی زندگی کا نصب العین تھا۔

عثمان خان

پشتو موسیقی کے صدارتی ایوارڈ یافتہ موسیقار استاد نذیر گل کہتے ہیں کہ ابتدائی تعلیم انہوں نے بالا مانڑی پشاور کے سرکاری سکول سے حاصل کی لیکن سکول میں ان کا جی کب لگتا تھا۔

بقول ان کے سکول سے اکثر غیرحاضر ہی رہتے لیکن ماسٹر جی بجائے سزا کے بطور جرمانہ گیتوں کی فرمائش کرتے اور وہ اکثر یہ معروف گیت پیش کرتے، "لیلو باغ دی باغبان دے مونگ خو شنہ طوطیان یو نن دلی سبا بہ زونہ”۔

خیبرپختونخوا کی موسیقی کی اس جانی پہچانی شخصیت، استاد نذیر گل، کا آبائی علاقہ ماشوخیل ہے تاہم خود رامداس کی گلی کوچوں میں کھیل کود کر جوان ہوئے اور آج ساٹھ سال کی عمر میں بھی وہیں زندگی کے شب و روز بسر کر رہے ہیں۔

استاد نذیر گل کو موسیقی ورثے میں ملی ہے ان کے والد استاد خائستہ گل اپنے دور کے نامور طبلہ نواز تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ ان کا سکول میں کبھی دل نہیں لگا کہ موسیقی ہی ان کی خمیر میں گندھی ہوئی، ان کے رگ و پے میں رچی بسی ہوئی اور موسیقی ہی میں نام پیدا کرنا ان کی زندگی کا نصب العین تھا۔

استاد نذیر گل کہتے ہیں کہ اپنے موسیقار ہونے پر انہیں فخر ہے کہ اسی کے دم سے آج ان کا ایک مقام ہے اور بڑی عالی المرتبت شخصیات ان کا احترام کرتی ہیں۔

استاد نذیر گل کا نام اپنے وقت کے نامور فنکاروں کے ساتھ جڑا رہا ہے جن میں رفیق شینواری، خیال محمد، مہ جبیں، باچہ زرین، معشوق سلطان، ہدایت اللہ اور گلنار بیگم شامل ہیں۔

علاوہ ازیں خیبرپختونخوا میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنے فن کا جادو جگانے والے استاد نذیر گل جب ہارمونیم کو چھیڑتے ہیں تو محفل پر ایک سحر سا طاری ہوجاتا ہے جس سے سامعین نکلنے کی خواہش ہی نہیں رکھتے، استاد کے بقول 45 سال تک پشتو موسیقی کی انہوں نے خدمت کی ہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔

"بہت سے مشہور و معروف موسیقاروں سے فن سیکھا جن میں استاد مرحوم رفیق شینواری، شمعی کاکا، شیرافگن استاد اور استاد راحدت حسین ہیں، پہلی بار 1988 میں استاد رفیق شینواری ریڈیو پاکستان لے کر گئے کیونکہ امیر حمزہ شینواری مرحوم، رفیق شینواری  اور والد صاحب قریبی دوست تھے تینوں تصوف کی دنیا کی ایک معتبر شخصیت عبالستار شاہ باچہ عرف بادشاہ جان کے مرید تھے اور ان کے آستانے پر جاکر عارفانہ کلام گاتے تھے۔”

صدارتی ایوارڈ یافتہ موسیقار کے مطابق بادشاہ جان کے آستانے نے بڑے بڑے موسیقاروں اور گلوکاروں کو چمکایا ہے اور جس نے بھی اس درگاہ سے موسیقی کی شروعات کیں انہیں ایک دنیا جانتی ہے جیسے رفیق شینواری، خیال محمد اور ایسے اور بہت، کہتے ہیں اب بھی ہر جمعرات کی شب بادشاہ جان کے مزار پر محفل سماع ہوتی ہے جہاں ان کے عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔

نیم کلاسیکی موسیقی کے دلداہ اور غزل شوق سے سننے اور ریکارڈ کرانے والے استاد نذیر گل موجودہ فنکاروں میں صوابی سے تعلق رکھنے والے معروف گلوکار ہارون باچہ سے متاثر ہیں جبکہ گلوکاراؤں میں نازیہ اقبال ان کی پسندیدہ ہیں۔

کہتے ہیں کہ اس میدان میں پیسہ تو نہیں بنا سکے ہاں نام اور مقام ضرور پیدا کیا ہے جس پر  انہیں بہت ناز ہے۔

وہ جدید موسیقی کی مخالف نہیں بلکہ نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ پشتو موسیقی کے آگے کی طرف سفر کے خواہاں بس چاہتے ہیں کہ اپنی موسیقی اور اپنے ساز بھی فراموش نہ کیے جائیں۔

استاد نذیر گل خیبرپختونخوا حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی اور لاہور کی طرح پشاور میں ایک میوزک اکیڈمی قائم کی جائے تاکہ موسیقی کے طلباء یہ فن بہتر طور پر سیکھ سکیں۔

استاد نذیر گل کے چھ بچے ہیں، دو بیٹیاں اور چار بیٹے لیکن قلق سب سے زیادہ انہیں اس بات کا کہ جو موسیقی نسلوں سے ان کے خون اور رگوں میں دوڑی چلی آرہی ہے اس سے شغف ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں۔

2015 میں حکومت نے استاد نزیر گل کی پشتو موسیقی کیلئے خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا جبکہ اس کے علاوہ وہ ملکی و عالمی سطح پر ڈھیر سارے اعزازات سمیٹ چکے ہیں۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button