امجد عزیز ملک، پاکستان کے لئےاعزاز کمانے والے پہلے سپورٹس جرنلسٹ

نمائندہ خصوصی نبی جان اورکزئی
امجد عزیز ملک کو ایشا سپورٹس جلرنلسٹس تنظیم نے سیکرٹری جنرل منتخب کیا ہے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی پاکستانی کو یہ اعزاز حاصل ہوگیاہے۔ امجد عزیز تین دہائیوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہے انھوں نے اپنا کیریئر سپورٹس جرنلسٹس کے طور پر شروع کیا تھا بعد میں مختلف اداروں کے ساتھ وابستہ رہے جنگ گروپ کے اخبار کے علاوہ جیو ٹی وی کے ساتھ کئ سال کام کیا ہے ۔ امجد عزیزملک آج کل روزنامہ ایکسپریس پشاور کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہے۔
امجد عزیز ملک کی ٹی این این کے ساتھ ہونے والی نشست میں انہوں نے اس اعزاز کے حصول تک حالات اور مسلسل جدوجہد کو ذ یل الفاظ میں بیان کیا ۔
ٹی این این : ہمارے قارئین کو بتائے کہ امجد عزیز ملک کون ہے ؟
میرا تعلق پشاور سے ہے اور میں نے تعلیم بھی اسی شہر میں حاصل کی ہے انیس سو بیاسی میں جب میں نے میٹرک پاس کیا تو اخبار وطن کے نام سے ایک مشہور سپورٹس میگزین کے لئے لکھنا شروع کیا۔ ابتدائ میں مختلف اخبارات اور رسائل میں میرے خطوط چھپتے تھے اس کے بعد میں میں نے کھیلوں کے حوالے سے اخبارات میں ارٹیکل لکھنا شروع کئے۔ پھر انیس سو پچاسی میں روزنامہ جدت میں بحثیت سپورٹس ایڈیٹر بھرتی ہوا جس کے بعد میں نے جنگ اخبار کے سپورٹس اور کلچر پیج کے لئے سولہ سال تک لکھا اور جب جیو ٹی وی لانچ ہوا تو مجھے پشاور سے رپورٹر رکھا گیا اور پھر ترقی کے منازل طے کرتے کرتے میں جیو پشاور بیورو کا بیورو چیف بن گیا۔
میں نے کھیلوں کے حوالے سے نو کتابیں لکھی ہیں اوراللۃ کے فضل سے میں پاکستان کا واحد صحافی ہوں جس کی اتنی تحاریر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے ڈھائی سو سے زائد ہاکی میچز کی کمینٹری بھی کی ہے جو کہ میرے لئے ایک اعزاز ہے۔ سال انیس ننانوے۔دو ہزار کے لئے جب لیاقت باغ کے جمنازیم میں مہدی حسن، نورجہاں اور فریدہ خانم ایوارڈ لے رہے تھے تو ان بڑے ناموں کے ساتھ مجھے بھی بیسٹ ہاکی کمینٹیٹر کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
ٹی این این : اعزاز حاصل کرنے کے بعد حکومتی سطح پر کوئی پزیرائی ملی ہے ؟
ابھی لوگ دلیپ کمار اور راج کپور پر فخر کر رہے ہیں کہ ان کا تعلق پشاور سے ہے تاہم وہ تب کامیاب ہوئے جب انہوں نے پشاور چھوڑا لیکن میں ایسا شخص ہوں جو یہاں رہ رہا ہوں یہاں کا باسی ہوں اور یہی سے میں نے پورے ایشیا سپورٹس جرنلسٹس تنظیم کی جنرل سیکرٹری کا عہدہ حاصل کیا ہے جو کہ ایک غیرمعمولی بات ہے۔
میں نے سب کچھ اپنی محنت سے کیا ہے ۔ نہ تو میرے ساتھ اکاونٹس میں بھاری رقم ہے اور نہ ہی پلاٹس ہیں لیکن پھر بھی مجھے اپنی دھرتی اور اپنے عوام سے لگاؤ ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر میں کراچی یا لاہور رہ رہا ہوتا تو مجھے کتنی پزیرائی ملتی لیکن پشاور شہر ہی ایسا ہے کہ پورے صوبے میں کوئی یاد ہی نہی رکھتا۔ انتخابات میں فتح یاب ہونے کے بعد مجھے قازقستان کے صدر، سری لنکا کے وزیراعظم اور چین کمیونسٹ پارٹی کے رہنماووں کی کالز موصول ہوئیں لیکن ہماری حکومت کو تاحال یہ پتہ بھی نہیں کہ میں نے کیا کارنامہ کیا ہے۔ یہ میری بدقسمتی ہوگی لیکن پھر بھی میرا اس شہر اور اس ملک کو چھوڑنے کا کائی ارادہ نہیں۔
ٹی این این : سپورٹس جرنلزم کی طرف رجحان کیسے بڑھا اور ان کی تنظیموں میں شامل ہونے کا ارادہ کیسے کیا ؟
میں نے انیس چھیاسی میں اس صوبے میں سپورٹس رائٹرز ایسوسی ایشن قائم کیا۔ اس وقت یہاں چار پانچ صحافی تھے جو سپورٹس سے وابسطہ تھے اور بڑے بڑے اخباروں میں ہمارے صوبے کے کھیلوں کو کوریج بہت کم ملتی تھی ہمارے مقابلہ میں لاہور اور کراچی کے سپورٹس ایونٹس کو زیادہ کوریج ملتی تھی۔
ہم نے اس وقت صوبے کے نام کی مناسبت سے سرحد سپورٹس رائٹرز ایسوسی ایشن قائم کی۔ میں اس تنظیم کا پہلا سیکرٹری اور راشد جاوید اس کے صدر منتخب ہوئے۔ پھر ہم نے مرحوم عاصم نقوی سے گزارش کی ہمیں پاکستان سپورٹس رائٹر فیڈریشن میں موقع دے دیں جس پر انہوں نے ملک میں چار سپورٹس رایئٹرز ایسوسی ایشنز بنائیں جس میں ہمیں بھی اس کا حصہ بنایا گیا۔ سال دو ہزار بارہ میں روسی شہر سوچی میں جب ورلڈ سپورٹس جرنلسٹس باڈی کے انتخابات ہورہے تھے تو میں نے ایگزیکٹیو کمیٹی کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میں اس کمیٹی کا ممبر بنا۔
اسی طرح گزشتہ ماہ جب یہ ایشین سپورٹس جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے انتخابات ہونے کو تھے تو اس وقت میرے دل میں خواہش بیدار ہوئی اور میں نے جنرل سیکرٹری کے عہدے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور اللہ کے رحم و کرم سے میں نے کامیابی حاصل کرلی اورآج میں پاکستان کا واحد صحافی ہوں جسے یہ اعزاز حاصل ہوا۔
ٹی این این : اس عہدے کو سنبھالنے کے بعد آپ کی کون کون سی ذمہ داریاں بنتی ہیں ؟
ہماری زمہ داریاں ابھی انتخابات کے بعد ہی شروع ہوئی ہیں۔ اب میری خواہش ہے کہ پورے ایشیا میں کھیلوں کو فروغ ملے حالانکہ میری زمہ داری یہ نہیں ہے کہ میں کھیلوں کے فروغ کے لئے کام کروں میری زمہ داری تو یہی ہے کہ جو صحافی سپورٹس کوریج کرتے ہیں ان کی ویلفئیر کے لئے کوششیں کروں۔
اب میں ضرور پہلے ایشا اور پھر پاکستان کے لئے کچھ کروں گا۔ اب ہمارے فیڈریشن نے انے والے دس ماہ میں سولہ ممالک میں سولہ تقاریب منعقد کی ہیں جس میں تربیتی پروگرامز اور سیمینار شامل ہیں۔ ان تقاریب میں پورے ایشیا کے کھیلوں کے صحافی اور خصوصی طور پر نوجوان سپورٹس صحافی شرکت کرینگے۔ میری کوشش ہوگی کہ پاکستانی صحافیوں کو دیگر ممالک کے صحافیوں کے ساتھ میل جول اور اٹھک بیٹھک کا موقع ملے ۔
ٹی این این : ملک سعد ٹرسٹ کے ممبر ہونے کے ناطے اس کی تفصیلات زرا بتائے کہ بنایا کس نے تھا اور کون کون سے شعبوں میں کام کرتا ہے۔
دوہزار پانچ میں سی سی پی او ملک سعد کو میں نے تجویز دی کہ خیبرپختونخوا اور فاٹا میں سپورٹس کی فعالیت کافی زیادہ ہے جس کو حکومتی سرپرستی نہیں ملتی تو کیوں نہ ہم فرنٹئیر فاٹا سپورٹس کے نام سے ایک ٹرسٹ بنائے اور اس وقت کے گورنز کمانڈ خلیل ملک نے بھی ہمارے اس ائیڈیا کی تائید کی۔ اس کے بعد سال دو ہزار سات میں پشاور میں پہلا خودکش دھماکہ ہوا جس میں سی سی پی او ملک سعد جان کی بازی ہار گئے بعد میں ہم نے وہ ٹرسٹ مرحوم کے نام سے منسوب کیا۔ ابھ تک ہم نے فاٹا کے چار ایجنسیوں اور صوبے کے بیس اضلاع میں ایک سو پچاس سے زائد سپورٹس اکیڈمییز بنائی ہیں اور ڈیڑھ کروڑ تک کا کھیلوں کا سامان کھلاڑیوں میں تقسیم کیا ہے۔ ملک سعد ٹرسٹ اب ہرسال ان اکیڈمییز کے بیچ مقابلے کرواتا ہے اور بہترین کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر تعلیمی بورڈ میں ٹاپ پوزیشنز لینے والوں کو ایک ایک لاکھ روپے کے وظائف بھی مہیا کئے جاتے ہیں۔
اسی طرح ملک سعد ٹرسٹ صحت کے محکمے میں مختلف فاونڈیشنز کے ساتھ ملکر میڈیکل اور بلڈ کیمپس لگاتی ہے اور تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کو خون فراہم کرتے ہیں۔
ٹی این این : موجودہ صوبائی حکومت کی کھیلوں کے لئے کئے جانے والے اقدامات سے اپ مطمئین ہیں ؟
دلچسپ پات یہ ہے کہ اب حکومت نے بین الاضلاعی مقابلے شروع کئے ہین جس کے سات کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے اور اس کے لئے میں نے سپورٹس حکام سے کہا تھا کہ یہ مقابلے میں ڈیڑھ سے دو کروڑ کے بجٹ میں کرواسکتا ہوں لیکن وہ نہ مانیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اس میں کرپشن ہوگی لیکن میرے خیال میں یہ پیسے کا ضیاع ہے۔ میری پی ٹی ائی حکومت سے امید تھی کہ یہ لوگ کھیلوں کے لئے بہت کچھ کرینگے۔ اب یہ گراونڈ بنا رہے ہیں تو اس کی مرمت کون کرے گا میں نے ابھی حکومت کو تجویزدی ہے کہ حیات اباد میں گراونڈ میرے حوالے کرے میں اسے بہت اچھے طرئقے سے انگلینڈ کاونٹی کرکٹ جیسا بنانے کا منصوبہ ہے۔ میں نے جیم خانہ کرکٹ گراونڈ کو بھی بتایا ہے کہ وہ یہ گرائونڈ میرے حوالے کردے وہاں میں ورلڈ کلاس پچ بناوں گا۔ ان چیزوں کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔ عمران خان اور وزیراعلی چاہتے ہیں کہ وہ کھیلوں کے لئے کچھ کرے لیکن نیچھے کا عملہ ٹھیک نہیں جس کی وجہ سے ان کی تمام تر کوششیں رائیگاں جاتی ہیں۔ میری زندگی کا مقصد یہی ہے کہ میں کھلاڑیوں کے لئے کچھ نہ کچھ کروں۔