فیچرز اور انٹرویو

قیام امن اور ترقی تعلیم نسواں کے بغیر ناگزیر ہے: سوشل ایکٹیوسٹ مہرین آفریدی

پشاور ۱۱اکتوبر: قبائلی علاقوں میں نوجوانوں اور خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم مہرین آفریدی نے ۲۰۱۳ میں نیشنل یوتھ ایوارڈ جیتا اور اسکے علاوہ ان کا نام دیگر کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز کے لئے نامزد ہوچکا ہے۔ انہوں نے قبائلی خواتین اور نوجوانوں کے حقوق کے لئے ہر فورم پر آواز اٹھائی۔ ٹی این این نے محترمہ کے ساتھ ایک نشست مقرر کی جس میں ان کی کاؤشوں اور جدوجہد کے متعلق سوال جواب پر مبنی گفتگو ہوئی۔

ٹی این این : قبائلی جوانوں کی خدمت اور رہنمائی کا جذبہ اچانک کیسے ذہن میں آیا ؟
مہرین: مجھے اس وقت ایک درد سا محسوس ہوا جب میں نے قبائلی جوانوں کی حالت زار کا تقابل خیبر پختونخوا اور اسلام آبادمیں بسنے والے ترقی یافتہ نوجوانوں کے ساتھ کیا۔ مجھے حیرانگی ہوئی کہ کیوں ہمارے قبائل کو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جارہا ہے اور ان کو کیوں غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہاہے اور یہی نہیں اور بھی کئی مسائل ہیں۔ اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی کہ قبائل محب وطن ہیں اور اس دھرتی کے وفادار ہیں آج تک وفاقی حکومت نے قبائلی نوجوان کے مستقبل کے لئے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی اور نہ ہی اس پر کوئی خصوصی توجہ دی۔ انہوں نے اس وطن کی حفاظت کے لئے جانوں کے نظرانے پیش کئے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں اس وقت تک امن کی وضع بہتر نہیں ہوسکتی جب تک یہاں کے باسیوں کو بہتر روزگار کے مواقع، بہترین ماحول اور معیشت کو بہتر نہ کیا جائے۔ قبائلیوں پر اب تک برطانوی سامراج کے زمانے کا کالا قانون جسے ہم ایف سی آر کے نام سے جانتے ہیں رائج ہے جسکے تحت یہاں کے باسیوں کو بنیادی ضروریات زندگی سے محروم رکھا گیا ہے۔ یہی وہ محرکات ہیں جس کے نتیجے میں فاٹا یوتھ فورم کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ ہر فورم پر قبائلی نوجوانوں کی نمائندگی کرسکے۔

ٹی این این: کیا آپ قبائلی خواتین کی سیاسی کردار سے مطمئن ہیں ؟
مہرین: کیسے ایک خاتون اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاسکتی جبکہ اس کے علاقے میں اسے زندگی کی بنیادی ضروریات جیسے صحت، تعلیم، سڑکیں وغیرہ موجود نہ ہو۔ ؟ قبائلی خاتون اس وقت اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھا سکے گی جب اسے پارلیمنٹ میں مخصوص سیٹ پر نمائندگی کرنے کا موقع دیا جائے۔ جب قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین مخصوص نشستوں پر منتخب ہوکر اسمبلی کا حصہ بن سکتی ہیں تو قبائلی خاتون کیوں نہیں بن سکتی ؟ میں حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ قبائلی علاقوں میں خواتین کی حیثیت پر ایسا ہی ایک کمیشن بنائے جیسا کہ قومی اور صوبائی سطح پر بنایا گیا ہے۔

ٹی این این : قومی اسمبلی میں فاٹا ریفارمز کے حوالے سے پیش کئے گئے بل کی کیا آپ حامی ہے ؟
مہرین : ہم نے پاکستان بننے سے لیکر آج تک آزادی نہیں دیکھی کیونکہ ہم پر ایف سی آر، جو کہ ۱۹۰۱ میں ہم پر نافذ کیا گیا کے تحت حکومت کی جارہی ہے۔ میں اس بل کی بالکل تائید کرتی ہوں۔ تاہم اس کا جو طریقہ عمل ہے اسکی رفتار سست ہے اسے زرا تیز ہونا چاہئے۔ اور ریفارمز تو دوہزار گیارہ میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی عمل میں لائی گئیں لیکن اسے نافذ نہ کیا جاسکا۔ اور عوام اس وقت تک کسی بھی ریفارمز سے مستفید نہیں ہوسکتے جب تک اسے نچلی سطح پر نافذالعمل نہ بنایا جائے۔

ٹی این این : آپ کی کاوشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں آپ کی فیملی کہاں تک سپورٹ فراہم کرتی ہے ؟
مہرین : میری فیملی نے ہمیشہ زندگی کے ہر موڑ پر مکمل سپورٹ کیا۔ اور ہمارے معاشرے ایک کامیاب عورت کا وجود اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک کہ اسے اپنے خاندان کی حمایت اور تائید حاصل نہ ہو۔ عورتوں کے حقوق کے لئے جب میں نے آواز اٹھائی تو میرے والد نے نہ صرف سپورٹ کیا بلکہ میری رہنمائی بھی کی۔

ٹی این این : قبائلی علاقوں میں تعلیم نسواں کی شرح کو کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے ؟
قبائلی علاقوں کا تعلیمی نظام درحقیقت بوسیدہ ہچکا ہے اور اسکی کارکردگی مایوس کن ہے۔ قبائلی علاقوں میں خواتین کی تعلیم پر ہم سب کی توجہ ہونی چاہئے کیونکہ جو تین فیصد تعلیمی شرح پہلے تھی اب اس سے بھی نچلے درجے پر آگئی ہے۔ قیام امن اور ترقی کے لئے تعلیمی نظام کو پروان چڑھانا ہوگا۔ اور قبائلی علاقوں میں تعلیم نسواں کی بھتری کے لئے کافی تگ و دو اور محنت درکار ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button