فیچرز اور انٹرویوقبائلی اضلاع

”باہر کوئی کام پیش آتا ہے تو کائنات کے بغیر نہیں ہوتا”

شمائلہ آفریدی

کراچی میں رہائش پذیر خیبر پختونخوا کے سابق ایف آر پشاور (حسن خیل سب ڈویژن) سے تعلق رکھنے والی پچیس سالہ سیما اعلی تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں تاکہ دکھی انسانیت کی خدمت کر سکیں لیکن بدقسمتی سے ان کا یہ خواب ادھورہ ہی رہ گیا۔

ٹی این این کے ساتھ خصوصی گفتگو میں اُنہوں نے بتایا کہ شروع سے یہی سوچا تھا کہ ڈاکٹر بنوں گی لیکن بھائی کو میرا کالج اور یونیورسٹی جانا پسند نہیں تھا، ان مشکل حالات میں بھی اپنی والدہ کی مدد اور اعانت سے میٹرک کے امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کی اور بھائی کی مخالفت کے باوجود چپکے سے کالج میں داخلہ بھی لے لیا، ”لیکن تھوڑے عرصے بعد بھائی کو پتہ چل گیا اور میرا کالج جانے کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ والدہ کی منت سماجت کے باوجود نہ صرف بھائی نے انکار کیا بلکہ خاندان والوں میں جلدی سے میری شادی بھی کروا دی۔”

پاکستان کے سب بڑے شہر کراچی میں جہاں پر ملک کے دیگر شہروں کی نسبت تعلیم کی سہولیات کافی زیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود پچاس لاکھ سے زائد پشتونوں کا دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ناخواندگی، تعلیم سے دوری بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔

طاہر زلان کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی حبیب میں پشتو ادبیات کے لیکچرار ہیں اور اُن کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ کراچی کی پشتون خواتین میں تعلیم کی کمی حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں یہاں کے پشتون اپنی بچیوں کو تعلیم نہیں دلوانا چاہتے تھے لیکن اکیسویں صدی میں پشتون عورتیں بیدار ہیں اور چاہتی ہیں کہ  وہ اعلی تعلیم حاصل کر کے معاشرے میں ایک باعزت مقام بنا سکیں۔ ان کے مطابق کراچی میں ترقی یافتہ علاقوں میں رہنے والے پشتون خاندانوں کی لڑکیاں مختلف شعبہ جات میں آگے جا رہی ہیں، تعلیم حاصل کرنے کے لئے خاندان کی طرف سے انہیں ہر ممکن تعاون حاصل رہا ہے لیکن اس کے مقابلے میں غریب اور متوسط خاندانوں کی لڑکیوں کو، جن میں زیادہ تر کچی آبادیوں میں سکونت رکھتی ہیں، خاندان والوں کی طرف سے بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس کے علاوہ تعلیمی ادروں کی کمی، غربت، اور سخت روایت پسندانہ سوچ لڑکیوں کو اپنی زندگی بہتر بنانے کے لئے گھروں سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتی۔

رواں سال 22-2021 میں سندھ حکومت نے 1477 ارب روپے کا ٹیکس فری بجٹ پیش کیا گیا جس میں بجٹ میں تعلیم کے لیے 277 بلین روپے مختص کئے گئے ہیں لیکن ماہرین کے مطابق پیپلز پارٹی کے بارہ سالہ دورِ اقتدار میں سندھ میں تعلیمی شعبہ زبوں حالی کا شکار رہا ہے۔ سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی کے مطابق سندھ میں 35 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔

تاہم تحریک انصاف کی صوبائی اسمبلی کی رکن رابعہ اظفر نظامی کے مطابق دیہی سندھ میں خواندگی کا تناسب 34 فیصد ہے جو بلوچستان سے بھی کم ہے۔ ادارہ یونیسیف کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سندھ میں 51 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔ یہ تعداد 80 سے 85 لاکھ کے قریب بنتی ہے۔

مسائل کے باجود بھی کراچی میں سوات کی عائشہ نے جامعہ کراچی سے نہ صرف بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا ہے بلکہ وہ ایک نجی کمپنی میں ملازمت بھی کر رہی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ خوش قسمت تھیں ایسے خاندان میں اُنہوں نے آنکھ کھولی جہاں لڑکے اور لڑکی کی تعلیم کے حصول میں کوئی فرق نہیں تھا۔

عائشہ کے مطابق کراچی میں اکثریت پشتون خاندان لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ایسا نہیں سوچتے باوجود اس کے کہ کراچی میں تعلیمی ادارے کافی زیادہ ہیں اور خواتین بڑی تعداد میں سرکاری یا نجی اداروں میں نوکریاں کرتی ہیں۔ اُن کے بقول پشتون لڑکیوں میں شرح خواندگی کی کمی انتہائی تشویش ناک ہے کیونکہ تعلیم ایک ایسی طاقت ہے جو آپ کو بااختیار بناتی ہے۔

جس معاشرے میں عائشہ نے تعلیم مکمل کی اور بعد میں نوکری شروع کی یہ عمل انتہائی مشکل تھا کیونکہ محلے اور رشتہ داروں کی طرف سے طرح طرح کی باتیں برادشت کیں لیکن ہمت نہیں ہاری۔

سیما کی زندگی شادی کے کچھ عرصے بعد انتہائی مشکل سے گزر رہی ہے۔ والد کے گھر پر اعلی تعلیم کے حصول میں بھائی کے انتہا پسندانہ خیالات روکاٹ بنے جبکہ رشتہ پڑھے لکھے خاندان میں ہوا جو کہ اُن کیلئے اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لئے اُن کی آخری اُمید تھی تاہم سسرال والوں کی طرف سے تعلیم کے حصول میں مدد کے بجائے اُن کیلئے دیگر مسائل پیدا کئے گئے اور اب وہ پچھلے دو سالوں سے والد کے گھر میں اپنی ایک بچی کے ساتھ رہ رہی ہیں۔

اُن کہنا ہے کہ اگر وہ اعلی تعلیم حاصل کرتیں، ڈاکٹر بنتیں تو اج انہیں اتنے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا، کم از کم اپنے اخراجات کو تو وہ خود ہی پورا کرتیں۔

فضل بونیر کراچی میں صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر سے ہے۔ کراچی میں پشتون لڑکیوں میں کم شرح تعلیم کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں 50 لاکھ تک پشتون آباد ہیں، اکثریت مزدور طبقہ کی ہے جو کہ بمشکل گزارا کرتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو انتہائی کم اُجرت پر کام کرتے ہیں، مالی مسائل لڑکیوں کی تعلیم کے حصول میں بڑی رکاوٹ ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ یہی لوگ شہر کے اُن کے علاقوں میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات بہت کم ہیں اور ان کے علاقوں میں لڑکیوں کے تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں، دوسرے سخت سماجی رویوں اور قدامت پسند سوچ کی بناء پر پشتون لڑکیاں اعلی تعلیم سے محروم ہو جاتی ہیں۔

ویدہ کاکڑ کا تعلق بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے ہے لیکن وہ کراچی میں رہتی ہیں اور جامعہ کراچی کے شعبہ قانون میں زیر تعلیم ہیں، اُن کے بقول پاکستان میں شدت پسندانہ رویوں کو فروغ ملنے کے بعد پشتون علاقوں میں طالبائنزیشن کی وجہ سے خواتین کیلئے تعلیم کے حصول کو مزید مشکل بنا دیا اور اس حوالے سے ایک منفی پروپیگنڈہ پھیلایا گیا کہ جدید تعلیم کے ساتھ عورت کو بے جا آزادی مل جائے گی ایک اسلامی معاشرہ جس کی اجازت نہیں دیتا تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تعلیم یافتہ خواتین کے بغیر کوئی معاشرہ یا ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

طاہر زلاند کے مطابق کراچی جیسے بڑے شہر میں پشتون لڑکیوں میں شرح تعلیم میں اضافے کے لئے یہاں کے پشتون لیڈروں کو، خواہ جس پارٹی سے بھی ہوں، پشتون لڑکیوں کیلئے اعلی تعلیم کے حوالے سے آواز اُٹھانی چاہئے۔ اُن کا کہنا ہے کہ لوگوں میں شعور اُجاگر کرنے کے لئے سیمنار اور دیگر ذرائع کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو سکے کہ خواتین کی تعلیم کی اہمیت کیا ہے، اس سے منفی سوچ کے خاتمے میں بھی مدد مل سکے گی۔

سندھ میں انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے وائس چیئرمین بر خضر قاضی نے ملک میں اسکولوں کی صورتحال پر کافی تحقیق کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ حکومت سندھ کے تعلیم اور لٹریسی کے محکمہ نے گزشتہ کئی برسوں سے اسکولوں کا سروے ہی نہیں کیا، نہ ان کے پاس چائلڈ لیبر کی تعداد کے بارے میں کوئی تحقیق موجود ہے، اس بناء پر سعید غنی کے پیش کردہ اعداد و شمار حقیقی نہیں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ کراچی سمیت پوری سندھ کے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے غریب خاندانوں کے بچے بچیاں تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔

تعلیم سے محروم پشتون خواتین کو گھر سے باہر اپنی ضروریات پوری کرنے میں کافی مسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والی اکیس سالہ کائنات کو سات سال کی عمر میں کراچی میں مخلوط سکول نہ ہونے کی وجہ سے والد نے گھر بٹھا دیا  والد کے بقول لڑکیوں اور لڑکوں کی آپس میں پڑھائی مناسب نہیں ہے۔ ان فرسودہ خیالات کی بھینٹ چڑھ کر کائنات کا تعلیمی سلسلہ ختم ہوا تاہم گھر والوں کی طرف سے دینی علوم کے حصول کی اجازت اُن کو مل چکی تھی لیکن وہاں پر اُنہوں نے اپنے والد سے چھپ کر اپنی معلمہ سے اُردو لکھنا اور بولنا بھی سیکھ لی۔ وہ کہتی ہیں کہ خاندان اور رشتہ داروں میں آج بھی اگر کوئی بیمار ہو جاتا ہے یا گھر سے باہر کوئی کام پیش آتا ہے تو اُن کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتا۔

کائنات کا کہنا ہی کہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ معاشرے میں خواتین کی تعلیم کی سخت مخالفت کے باوجود بھی جب کسی کے گھر میں  کوئی خاتون بیمار ہو جاتی ہے تو اُس کے علاج کیلئے کسی مرد ڈاکٹر یا دیگر مردانہ طبی عملہ برادشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، ”اس کے علاوہ بھی عورت کے مسائل عورت سے ہی حل کرانا چاہتے ہیں لیکن خود اپنی بچیوں کو اعلی تعلیم کی اجازت نہیں دیتے اس طرح پشتون معاشرے میں کیسے خاتون ڈاکٹر، اُستانی اور زندگی کے دیگر شعبوں میں خواتین سامنے آئیں گی۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button