’مراعات ختم ہوئیں لیکن انضمام کا کچھ فائدہ نہیں دیکھا‘
ٹی این این کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے فرمان اللہ نے کہا کہ نوجوانوں کی طرح انکی پارٹی بھی فاٹا اصلاحاتی عمل سے مطمئن نہیں ہے، عمران خان نے پچھلے دور میں اپوزیشن بنچوں پر یہ کہا تھا کہ نواز شریف کی حکومت فاٹا اصلاحات میں مخلص نہیں اور اب وہ خود وزیر اعظم ہیں اور انہیں خوب معلوم ہے کہ اصل رکاوٹیں کیا ہیں۔

چھ اکتوبر کو ٹرائبل یوتھ مومنٹ کے زیراہتمام سینکڑوں قبائلی نوجوانوں نے پشاور کے قیوم سٹیڈم سے لیکر گورنر ہاؤس تک ریلی نکالی اور اپنے پندرہ مطالبات کے حق میں دھرنا دیا۔
ان مطالبات میں قبائلی علاقوں میں جلد از جلد بلدیاتی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد، قبائلی اضلاع تک عدالتی نظام کی رسائی، فاٹا سیکٹریٹ اور ایف ڈی اے کو صوبائی انتظامیہ کے حوالے کرنا، ترقیاتی فنڈز میں کرپشن کی تحقیقات، قبائلی علاقوں میں معدنیات کے ٹھیکے مقامی لوگوں کو دینا، موبائل نیٹ ورک اور انٹر نیٹ کی بحالی، خالی آسامیوں پر بے روزگار قبائلی نوجوانوں کو روزگار دینے اور تعلیمی اداروں میں قبائلی طلبہ کے لئے کوٹہ بڑھانے سمیت کئی دیگر مطالبات شامل تھے۔
دوسری جانب قبائلی عمائدین نوجوانوں کی اس تحریک کو مختلف زوایوں سے دیکھتے ہیں۔
ضلع باجوڑ جماعت اسلامی کے راہنماٗ فرمان اللہ نوجوانوں کی اس تحریک سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں انکی پارٹی نوجوانوں کیساتھ کھڑی ہے۔
ٹی این این کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے فرمان اللہ نے کہا کہ نوجوانوں کی طرح انکی پارٹی بھی فاٹا اصلاحاتی عمل سے مطمئن نہیں ہے، عمران خان نے پچھلے دور میں اپوزیشن بنچوں پر یہ کہا تھا کہ نواز شریف کی حکومت فاٹا اصلاحات میں مخلص نہیں اور اب وہ خود وزیر اعظم ہیں اور انہیں خوب معلوم ہے کہ اصل رکاوٹیں کیا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ایک پوری منصوبہ بندی کے تحت قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے اس عمل کو متاٗثر کیا ہے اور اس سلسلے میں حکومت نے ایک ٹاسک فورس قائم کی ہے جس میں انضمام مخالف قوتیں شامل ہیں اور اس ٹاسک فورس کی کوشش ہے کہ اصلاحاتی عمل کے نفاذ کے لئے نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کی آواز کو دبایا جائے۔
اسی طرح ضلع کرم کے رہائشی سجاد علی کا کہنا ہے کہ اصلاحاتی عمل کے بعد قبائلی لوگوں نے اب تک انضمام کا کوئی فائدہ نہیں دیکھا، اس سلسلے میں حکومت کی بے حسی کے خلاف نوجوانوں کی تحریک کے علاوہ دیگر تحریکیں بھی شروع ہوجائینگی۔
انہوں نے کہا کہ ایف سی آر کے تحت قبائلی لوگوں کو جو محدود مراعات ملتی تھیں وہ بھی ختم کردی گئیں جبکہ انضمام کے کچھ بھی فائدے انکو نظر نہیں آتے۔
’ تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں میں ابھی تک قبائلی لوگوں کیلئے مختص کوٹہ دوگنا کیا گیا نہ ہی ہمارے علاقوں میں بلدیاتی انتخابات کے آثار دکھائی دے رہے ہیں، دوسرا یہ کہ آئینی ترمیم کے باجود بھی قبائلی علاقوں تک عدلیہ کو رسائی نہیں دی گئی اور لوگ نہیں جانتے کہ وہ اپنے معاملات اور مقدمات کہاں لے جائیں‘، سجاد علی نے ٹی این این کو بتایا۔
دوسری جانب جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قانون دان اسد عزیر محسود کا کہنا ہے کہ طلبہ اور نوجوان جلد بازی سے کام لے رہے ہیں کیونکہ انضمام کا عمل اتنا آسان نہیں جتنا وہ سوچ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک طویل اور صبر آزما عمل ہے اور حکومت اس سلسلے میں جتنا تسلی سے کام کرے اٗتنا ہی سود مند ہے، انضمام اور دیگر اداروں کی قبائلی علاقوں تک رسائی ایک سادہ عمل نہیں ہے جتنا کہ یہ لوگ سوچ رہے ہیں۔ ’ اب مثال کے طور جنوبی وزیرستان میں پولیس نظام قائم ہوتا ہے تو پہلے وہاں پر تھانوں کے لئے زمین کی نشاندہی کی جائیگی جس کے بعد وہ خریدی جائے گی اور تھانے قائم ہو جائینگے لہذا اس سارے عمل میں کافی عرصہ لگے گا۔‘
انہوں نے نوجوان طبقے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ برداشت سے کام لیں کیونکہ ابھی تک جو پیش رفت ہوئی ہے اس سے ظاہر ہے کہ حکومت اس سلسلے میں مخلص ہے۔
انضمام کے مخالف سمجھے جانے والے ضلع خیبر کے ملک عبد الرزاق کا مگر کہنا ہے کہ انکی مخالفت کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ یہ سارا عمل اتنی جلد بازی میں کیا گیا کہ اب حکومت سے سنھبل نہیں رہا اور حکومت نے مسائل کھڑے کئے ہیں، نوجواںوں کو چاہیے کہ وہ صبر سے کام لیں۔
ٹی این این کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قبائلی عمائدین کو پہلے سے معلوم تھا کہ حکومت ان کے ساتھ انضمام کے نام پر دھوکہ کرہی ہے اور اس لئے ہم لوگوں نے اسکی مخالفت کی، نوجوان طبقے کو اب احساس ہوا ہے لیکن اب وقت گزر گیا ہے۔