’قبائلی اضلاع میں سات ہزار افراد کے لئے صرف ایک ڈاکٹر دستیاب ہے‘
یہ اعداد و شمار ٹی این این کے پروگرام بدلون میں ماہرین نے بتائیں، ماہرین میں انصاف ڈاکٹر فورم کے سینئر عہدیدار ڈاکٹر نبی افریدی، صحافی عمر فاروق اور قبائلی علاقے خیبر سے تعلق رکھنے والے ایڈوکیت فرہاد افریدی شامل تھے۔

قبائلی اضلاع میں سات ہزار افراد کے لئے صرف ایک ڈاکٹر دستیاب ہے جبکہ دو ہزار آبادی کے کےلئے ہسپتال میں ایک بیڈ کی گنجائش ہے، دس ہزار زچہ بچہ کے کیسز میں چھ سو مائیں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اور ایک ہزار نوزائیدہ بچوں میں سے اسی بچے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
یہ اعداد و شمار ٹی این این کے پروگرام بدلون میں ماہرین نے بتائیں، ماہرین میں انصاف ڈاکٹر فورم کے سینئر عہدیدار ڈاکٹر نبی افریدی، صحافی عمر فاروق اور قبائلی علاقے خیبر سے تعلق رکھنے والے ایڈوکیت فرہاد افریدی شامل تھے۔
ڈاکٹر نبی افریدی نے بتایا کہ قبائلی علاقوں میں صحت کے بے پناہ مسائل ہیں، وزیرستان میں تین سو بنیادی صحت کے مراکز کو بآثر لوگوں نے حجروں اور مسجدوں میں تبدیل کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں بڑے بڑے ہسپتال بھی ہیں اور اچھے قابل ڈاکٹرز بھی ہیں لیکن بد قسمتی سے پچھلے فاٹا کے اندر کمزور نطام حکومت اور چیک اینڈ بیلنس کے فقدان کی وجہ سے اکثر سرکاری صحت کے مراکز غیر فعال ہیں اور لوگوں کو صحت سہولیات کی فراہمی میں مشکلات درپیش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے ساٹھ ستر سالوں میں قبائلی علاقوں کے اندر ایک میڈیکل کالج بھی قائم نہیں کیا گیا، جب اتنے بڑے آبادی والے علاقے میں کوئی ٹیچنگ ہسپتال نہیں ہوگی تو وہاں پر ضرور صحت کے مسائل ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ اب چونکہ قبائلی علاقوں کا خیبر پختونخواہ صوبے کیساتھ انضمام ہوا ہے اورحکومت نے فاٹا ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ کو صوبائی محکمہ صحت کے ماتحت کیا ہے اور آنے والے دنوں میں قبائلی علاقوں کا مکمل ہیلتھ سسٹم صوبے میں ضم ہو رہا ہے تو اس لئے قبائلی علاقوں کے صحت کے نظام اور انتظام پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔
پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایڈوکیٹ فرہاد افریدی نے کہا کہ حکومت ساٹھ سالوں کا گند دنوں میں صاف نہیں کرسکتی، اداروں کے انضمام میں مسائل رونما ہونگے لیکن اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انضمام کے بعد یہ مسائل حل نہیں ہونگے بلکہ حکومت ایک مناسب اور مروجہ طریقہ کار کے تحت ہیلتھ اور تعلیم کے محکمے صوبائی حکومت کے ماتحت کرہے ہیں جو ایک خوش آئند اقدام ہے۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے تعلیم یافتہ نوجوان فاٹا سیکٹریٹ کو کرپشن کا گڑھ سمجھتے ہیں لہذا اب انضمام کے بعد بہتر یہ ہے کہ فاٹا سیکٹریٹ کے تحت کام کرنے والے ادارے صوبائی حکومت کے ماتحت ہوجائیں۔
پشاور میں ہیلتھ کے شعبے پر نظر رکھنے والے صحافی عمر فاروق کا کہنا ہے کہ ایک صوبے کے اندر دو متوازی نظامیں نہیں چل سکتی، انضمام کے بعد فاٹا کے ادارے قانوناٰ صوبے کے چیف سیکرٰٹری کے ماتحت ہیں اور قبائلی علاقوں کا صحت کا نظام بھی صوبے کے ماتحت کام کریگا۔
ڈاکٹر نبی افریدی نے کہا کہ اس پورے نظام کی منتقلی میں کوئی پیچیدگیاں نہیں ہے کیونکہ قبائلی علاقوں کے اندر صحت کا ڈھانچہ موجود ہے، صرف مالی مسائل کے بارے میں اعلیٰ حکام کی مشاورت ہورہی ہے کہ کہ کس طرح ان صحت کے مراکز اور عملے کی اخرجات پوری کی جائیں۔
پروگرام کے شراکاٗ نے کہا کہ انضمام کے عمل کے لئے حکومت نے پانچ سال کا عرصہ مقرر کیا ہے اور اس عبوری مدت کے دوران ادروں کے انضمام اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل ترتیب وار حل کئے جائینگے۔