انٹرٹینمنٹبلاگز

پاکستانی ڈرامے:انٹرٹینمنٹ کی آڑ میں سکرین پر کیا دکھایا جا رہا ہے؟

سدرا آیان

فلمیں اور ڈرامے ہماری زندگی کا ایک دلچسپ موضوع ہے.کسی ڈرامے کا ایک قسط دیکھنے کے بعد خواتین اگلی قسط تک انکے کمروں کے سیٹ  ڈیزائنز سے لیکر کچن ، خوراک اور کپڑوں پر تبصرے کرتی ہیں اور ویسا ہی لائف سٹائل اور کپڑوں کے ڈیزائنز اپنانے کی کوشش کرتی ہے ۔

ہمارے نوجوان نسل کو کوئی کہتا نہیں کہ آجکل ایسے بال بنانے کا فیشن ہے یا ایسے کپڑوں کا فیشن ہے بلکہ انہیں ان سب  کا  خود پتہ ہوتا ہے اور یہ چیزیں وہ فلموں اور ڈراموں سے سیکھتے ہیں ۔

یوں کہا جاسکتا ہے کہ فلم اور ڈرامے کا مقصد ناظرین کو صرف انٹرٹین کرنا نہیں بلکہ اس ذریعے سے آنے والی نسلوں کو  اپنی ثقافت منتقل کرنا ہے لیکن میرے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کون سی ثقافت منتقل کر رہے ہیں ۔

ہماری پشتون فلم انڈسٹری تو آنے والی نسل کو غیر ملکی ثقافت منتقل کر رہی ہے۔  فلم کے کیسٹس پر پروفائل دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ پاکستان میں رہنے والی خود کو غیرت مند ،باحیا اور با پردہ کہنی والی قوم ہے۔دوسری بات پشتو فلم میں کہانی نہیں ہوتی اس میں صرف بندوقیں، دشمنیاں اور عورت کے جسم کی نمائش ہوتی ہے ۔

ہمارے معاشرے کے کچھ غیرت مند لوگ جن کے گھر میں خواتین کے سر سے دوپٹہ سرک جائے تو اسے بے حیا قرار دیتے ہیں جبکہ بے شرمی کی حدیں پار کرنے والے پشتو  فلم اور گانے خوب خوشی سے دیکھتے ہیں ۔

پچھلے دنوں میں نے لمبی مدت کے بعد اک پاکستانی ڈرامہ دیکھا جو مجھے واقعی بہت اچھا لگا ۔ میں اس ڈرامے کا نام نہیں لینا چاہتی  لیکن اس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ایک لڑکی گھر والوں سے چھپ کر نکاح کرتی ہے اور جب گھر میں پتہ چلتا ہے تو وہ لوگ لڑکے والوں کے گھر جاکر ان سے بات کرتے ہیں اور ان دونوں کی شادی کروا دیتے ہیں ۔ کہنے کو تو وہ ایک خوبصورت ترین ڈرامہ تھا لیکن انٹر ٹریننگ کی آڑ میں نوجوان نسل کے ذہن میں گھر والوں سے چھپ کر نکاح کرنے کا ایک گرہ ڈال دیا ۔ پہلے غلطی کروائی پھر ہیپی اینڈینگ ہوگئی حلانکہ حقیقی زندگی میں ان کارناموں کے نتائج بلکل میں اچھے نہیں ہوتے ہیپی اینڈینگ تو دور کی بات یہاں تو زندگی ہی اینڈ کروا دیتے ہیں تو یہی میں سوچ رہی تھی کہ انٹرٹینمنٹ کی آڑ میں سکرین پر کیا دکھایا جا رہا ہے؟ نوجوان نسل کے ذہنوں میں کیا چیز بٹھائی جارہی ہے ۔

یوں تو ہمارے نصابی کتب میں پشتون قوم کو بہت ہی غیرت مند اور با پردہ بیان کیا جاتا ہے لیکن انکی فلم و ڈرامہ انڈسٹری کو دیکھ کر کسی کو نہیں لگتا کہ ان میں ٹکہ برابر غیرت یا حیا ہوگی ۔ یہ لوگ پتہ نہیں سکرین پر دکھا کیا رہے ہیں اور یہ باقی دیکھ کیا رہے ہیں ۔دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اگر ایسے ڈرامے بننا بند ہو جائے تو لوگ خود بخود دیکھنا چھوڑ دینگے بنانے والے کہتے ہیں کہ یہی آجکل سکرین کی ڈیمانڈ ہے لوگ نہیں دیکھتے تو ہم کیوں بناتے ،لوگ دیکھتے ہیں تبھی تو بناتے ہیں ۔

یہاں میں کہتی ہوں کہ دیکھنے والوں کو تو جو بھی مل جاتا ہے وہ دیکھ لیتے ہیں ،انڈسٹری کو چاہیے کہ وہ حدود کو پار نہ کریں ۔ کیونکہ مثال ہمارے سامنے ہیں کچھ ڈرامے دیکھ کر لڑکوں نے بڑے بال اور داڑھی رکھ لی کچھ ڈرامے دیکھ کر لڑکیوں کے آدھے کپڑے اتر گئے جبکہ کچھ ڈرامے دیکھ کر بچے ہر طرف اللہ اکبر کے نعرے لگائے پھرنے لگے اور نوجوان نسل میں جہاد کا شوق سرک کر گیا ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ انڈسٹری جو چیز سکرین پر دکھائے گی تمام نوجوان نسل میں وہی چیز سرایت کر جائے گی ۔

کچھ وقت پہلے میں نے ایک پوسٹ پڑھا جس پر لکھا تھا کہ "غریبی سے امیری تک کا سفر صرف ایک دوپٹہ ہے ، غریب ہو تو پہن لو امیر ہو تو اتار لو ” اور یہی حقیقت ہے کیونکہ سچ میں یہی دکھایا جارہا ہے ۔ ایک سرف (surf) بیچنے کے لیے عورتوں کو راستوں میں دوڑا کر ان سے گلا پھاڑ کر آوازیں نکال کر کمرشلز بناتے ہیں ،ایک ملک پیک بیچنے کے لیے فرضی شادیاں اور عورتوں کو نچاتے ہیں ۔ پشتو انڈسٹری دشمنی ، اردو انڈسٹری ساس بہو کے جھگڑے اور سازشیں یا پھر عشق و محبت میں مرنا ، خودکشی کرنا ، سرعام پروپوز کرنا ، یونیورسٹی میں پیچھے پڑجانا یہ سب دکھا رہے ہیں ۔

اب دیکھیں نا پاکستانی ڈراموں میں محبت کی داستان اکثر سکول میں ، کالج یا یونیورسٹی میں ،سکول کالج یا یونیورسٹی سے گھر آتے وقت راستے  میں شروع ہو جاتی ہے ۔ تب باپ بھائی کہتے ہیں دیکھو تو سہی سکولوں کالجوں میں بس یہی سب ہوتا ہے ۔ یہ ہمارے لیے غور و فکر کی بات ہے کہ دو ٹکے ڈرامے میں لیے ہم تعلیمی اداروں کو بدنام کر رہے ہیں، دو ٹکے کی چیزیں بیچنے کے لیے عورت ذات کو استعمال کر رہے ہیں ۔

یوں تو فلموں اور ڈراموں میں عورت کو کم کپڑوں یا کسی حرکت پہ اسے خوب گالیاں دی جاتی ہے لیکن ہمیں اس بات پہ غور کرنا چاہیے کہ مجرم  نہیں جرم کا خاتمہ ہوجانا چاہیے ۔ عورت کو نچانے والے، فلم و ڈرامہ ڈائریکٹ کرنے والے اور انڈسٹری چلانے والے کون ہیں ؟ وہ جو کوئی بھی ہے اک عورت نہیں ہے وہ ۔ یہ ڈائریکٹرز ،پروڈیوسرز جو خود کو بہت براڈ مائنڈڈ بہت مثبت سوچ والے کہتے ہیں انکی اپنی بیٹی ،بیوی یا بہن تو کبھی کسی کو سکرین پر نظر نہیں آئی ۔ انہیں  صرف  دوسروں کی عزتیں پامال کرکے ان سے پیسہ کمانا ہے

ہم شائد انہیں روک نہیں سکتے لیکن ہم اپنے بچوں کو یہ گندگی دکھانے سے روک سکتے ہیں یہی ہمارے بس میں بھی ہے لہذا چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو وہ کانٹینٹس دکھائے جسے اگر وہ اپنی نیچر میں اڈاپٹ بھی کریں تو بھی انکے اخلاق، رہن سہن کے طور طریقے اور ڈریس سینس متاثر نہ ہو ۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے بچوں کو اس تباہی سے بچا سکتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button