تعلیم

کورونا وباء میں 100 فیصد پاس ہونے والے طالب علم فیل ہونے لگے

سلمیٰ جہانگیر

"میری بیٹی ماہ نور کبھی کسی امتحان یا ٹیسٹ میں فیل نہیں ہوئی وہ ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتی تھی لیکن کورونا وباء کی وجہ سے بچے اتنے ریلیکس ہو گئے کہ اب بورڈ کے نتیجے میں ماہ نور حساب کے پرچہ میں فیل ہو گئی۔” کوہاٹی گیٹ سے تعلق رکھنے والی شگفتہ نے بتایا۔

انہوں ںے کہا کہ ان کے زمانے میں بھی اسی طرح وباء پھیلتی تھی لیکن کبھی بھی ان کی پڑھائی کا حرج نہیں ہوا، اس سال بھی جب وباء پھیلی تو حکومت نے تمام تعلیمی اداروں کو بند کر دیا تھا جس سے بچوں کا قیمتی وقت ضائع ہوا۔

محکمہ ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے مطابق (سالانہ میٹرک گزٹ) سال 22-2021 میں جماعت نہم میں رجسٹرڈ طلباء کی تعداد 87777 ہے جنہوں نے 2022 کے امتحانات میں حصہ لیا جن میں 49391 امیدوار کامیاب جبکہ 38365 ناکام ہوئے۔

اسی طرح جماعت دہم میں رجسٹرڈ طلبہ و طالبات کی تعداد 80044 ہے جن میں 67246 کامیاب اور 12788 ناکام ہوئے، پاس طالبعلموں کی شرح ٪84 رہی۔

گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کی استانی شہنیلا کے مطابق کورونا وباء کے دوران بچوں کو آگے جماعت میں پروموٹ کرنا حکومت کا بہت اچھا اقدام تھا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو بچوں کے دو سال ضائع ہو جاتے اور جماعت نہم میں پشاور بورڈ نے امتحان دینے کے لیے جو کرائٹیریا رکھا ہے اس سے پھر موجودہ نہم جماعت کے طالب علموں کے لیے مشکلات پیدا ہو جاتیں۔

شہنیلا نے مزید کہا کہ بچوں کا وقت تو ضائع نہیں ہوا لیکن ان کی کارکردگی پر بہت اثر پڑ گیا ہے۔

"اس وقت کی خوشی کسی عید سے کم نہیں تھی جب امتحان کے دوران ہمیں چھٹیاں ملیں۔ مارچ میں میرے ماموں کی شادی تھی اور ابو ڈانٹتے تھے کہ جب تک امتحان ختم نہیں ہوتا نانی کے گھر نہیں جانا لیکن اچانک چھٹیوں کی خوشخبری نے عید کا سماں باندھ دیا۔” گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کی دسویں جماعت کی طالبہ جویریہ نے بتایا۔

جویریہ نے بتایا کہ 2019 میں وہ بغیر امتحان کے پاس ہو کر اگلی جماعت میں چلی گئی اور اسی طرح 2020 میں بھی ہوا لیکن اس سال جماعت نہم کا سالانہ امتحان دیا جس میں ان کے دو پرچے، حساب اور کیمسٹری، فیل ہوئے۔

جویریہ کے مطابق اس کی تیاری مکمل تھی لیکن دو سالوں کے وقفہ سے اس کی سیکھنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہو گئی ہے، چونکہ کورس کی کتابیں پچھلے کورس سے جڑی ہوتی ہیں اور کورونا کی وجہ سے انہوں نے پچھلی جماعتوں کا کورس مکمل نہیں کیا تھا تو ان کو جماعت نہم کے کورس کو سمجھنے کے لیے وقت زیادہ درکار تھا۔

آن لائن کلاسز کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں جویریہ نے بتایا کہ ان کے گھر میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں تھی، گھر میں ایک ہی موبائل فون تھا جس کو بڑا بھائی استعمال کرتا تھا۔

درس و تدریس کے شعبے سے منسلک مس ناصرہ نے بتایا کہ کورونا وباء کے دوران بچوں کو آن لائن کلاسز کے لیے تیار رکھنا اور ان کے اندر سیکھنے کا جوش برقرار رکھنا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا، کیونکہ اکثر بچے پڑھائی کے مقابلے میں گیمز اور دوسری سرگرمیوں میں مشغول ہوتے ہیں، ان کو یہ پسند نہیں کہ وہ سکرین کے سامنے زیادہ وقت پڑھائی میں گزاریں۔

مِس ناصرہ کے مطابق گھر میں بچوں کی آن لائن کلاسز کے لیے الگ الگ انتظام کرنا، اور تمام بچوں کے لیے علیحدہ علیحدہ ڈیوائس کا بندوبست کرنا ایک اور بڑا چیلنج تھا۔

مس ناصرہ نے مزید بتایا کہ وباء کی صورتحال نے ان کو اس بات کا احساس دلایا ہے کہ اب ٹیکنالوجی پر زیادہ توجہ دینا ہو گی کیونکہ یہ وقت کا تقاضہ بن گیا ہے، بچوں کو ٹیکنالوجی سے باخبر رکھنا تعلیمی اداروں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، ”وہ سکول جو ڈیجیٹل تعلیم میں سب سے پیچھے تھے یا دور تھے ان اداروں کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔”

اقوام متحدہ کے ادارے 2021 میں یونیسیف کے ایک مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کی گھروں میں پڑھنے اور سیکھنے کی صلاحیت وبائی صورتحال سے قبل کلاس رومز کے مقابلے میں کم ہو گئی ہے۔ اس دوران بچوں کا ٹیکنالوجی تک رسائی کا نا ہونا، مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ کے کنکشن کے مسائل اور طلباء کی عدم دلچسپی کی وجہ سے تعلیم کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ٪23 طالبعلموں کیلئے ڈیجیٹل ڈیوائس کی عدم موجودگی کے سبب آن لائن لرننگ ممکن ہی نہیں تھی جس کی وجہ سے طالبعلموں کا قیمتی وقت ضائع ہوا، اس دوران متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات سب سے زیادہ متاثر ہوئے کیونکہ وہ مہنگی ڈیوائسز کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔

ماریہ سلیم پچھلے 15 سالوں سے درس وتدریس کے شعبے سے منسلک اور پشاور کے ایک سرکاری ادارے میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ کورونا وباء کے دوران بچوں کے تعلیمی سالوں (2020٫2021) کا تقریباً نصف حصہ ضائع ہو گیا کیونکہ لامحدود تعطیلات کے باعث طالبعلموں نے گھر پر پڑھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود آئن لائن کلاسز لیتیں جن میں بچوں کی دلچسپی 10 فیصد سے بھی کم ہوتی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چونکہ میٹرک تعلیمی کریئر کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے اور ان بچوں نے وہ سیڑھی پھلانگ کے آگے قدم رکھا ہے تو لگتا یہی ہے کہ آگے جا کر کسی بھی قدم پر ان طالبعلموں کا زیادہ حصہ ڈگمگا سکتا ہے کیونکہ ان کی بنیاد مضبوط نہیں ہے۔

کورونا وائرس کی روک تھام کے سلسلے میں نافذ لاک ڈاؤن نے بھی ملکی معیشت کو بری طرح متاثر کیا اور مالی مشکلات کے باعث بہت سے طلباء کو اپنی تعلیم کو خیرباد کہنا پڑ گیا۔

ایسوسی ایٹ پروفیسر وارث خان نے بتایا کہ کورونا وباء کی وجہ سے صرف سرکاری سکولوں کے بچے متاثر نہیں ہوئے بلکہ اس سے نجی اداروں کے طلبہ و طالبات بھی بری طرح متاثر ہوئے جس کا اندازہ صوبہ کے مختلف بورڈز کے سالانہ نتائج سے لگایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سال بھی طالبعلموں کے ذہنوں میں یہ بات تھی کہ گزشتہ دو برسوں کی طرح اس سال بھی ان کو فری پروموشن ملے گی اس لیے اساتذہ کی محنت اور کوششوں کے باوجود چند طالبعلم سالانہ امتحان کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے اس لیے صوبے کے تمام بورڈز میں دوبارہ امتحانات منعقد ہو رہے ہیں جن کو سپیشل سالانہ امتحان 2 کا نام دیا گیا ہے۔

پروفیسر وارث خان نے بتایا کہ ان کے کالج میں فرسٹ ایئر کے طالب علم نسبتاً بہت کمزور ہیں کیونکہ یہ وہ بچے ہیں جو جماعت نہم اور دہم میں بغیر امتحان کے اگلی جماعتوں میں پروموٹ ہوئے تھے۔

پشاور وزیر باغ کی رہائشی نایاب، جن کی دو بیٹیاں مقامی سرکاری سکول میں پڑھ رہی ہیں، نے بتایا کہ 2020 اور 2021 ہر لحاظ سے مشکل ترین سال تھے جن کے اثرات سے ہر شعبہ بالعموم اور تعلیمی شعبہ بالخصوص بہت متاثر ہوا، ”حکومت اگر موثر اقدامات اپناتی تو موجودہ حالات اس کے برعکس ہوتے، سرکاری سکولوں کے بچوں کو آن لائن تعلیم کا کوئی موثر انتظام نہیں تھا۔”

نایاب نے بتایا کہ میں نے کورونا کے دوران اپنی بیٹیوں کو گھر میں پڑھایا اور تقریباً تمام مضامین مکمل کروائے لیکن بچہ مدرسہ میں جتنے اچھے طریقے سے سیکھ سکتا ہے گھر پر نہیں کیونکہ مدرسہ اس کو وہ ماحول میسر کرتا ہے جس میں سیکھنے کا عمل آسانی سے ہو سکتا ہے۔

گورنمنٹ ڈگری کالج گلاب آباد لوئر دیر کے شعبہ اردو سے تعلق رکھنے والے لیکچرار مسلم شاہ نے ٹیلیفون پر بتایا کہ کورونا وباء نے نقل کے رجحان کو بڑھاوا دیا کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ امتحان کے دوران امتحانی عملے نے سختی نہیں دکھائی تو طلبہ و طالبات نے محنت کی بجائے نقل کا سہارا لیا۔

انہوں نے کہا کہ وباء کے دوران نا صرف طالبعلموں کا قیمتی وقت ضائع ہوا بلکہ ان کی کارکردگی کافی حد تک متاثر ہوئی جس سے فیل ہونے کا رجحان بڑھ گیا۔

تعلیمی کمی کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی تک تو کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا، ”بس جو گزر گیا ہے وہ گزر گیا۔”

پشاور کے حشمت علی کا کہنا تھا کہ تعلیمی نظام درست کرنے میں وقت لگے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جی ڈی پی کے ٪2 سے بھی کم بجٹ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں اور مقابلہ ان ممالک سے کرنا چاہتے ہیں جو ٪10 سے زیادہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں، یہاں فی کس آمدنی 1200 ڈالر جبکہ ان ممالک کی 20000 ڈالر سے زیادہ ہوتی ہے، اسی طرح دونوں کی جی ڈی پی میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔

حشمت علی کے مطابق تعلیم کو ملنے والے بجٹ سے سائنسدان پیدا نہیں کر سکتے اور رہی سہی کسر کرونا اور کرونا کے دوران بنائی گئی امتحانی پالیسی نے پوری کی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button