جرائم

گزشتہ سال 2 ہزار 960 بچے اغوا ہوئے۔ ایم پی اے کا اسمبلی فلور پر انکشاف

عثمان دانش

خیبر پختونخوا اسمبلی نے بچوں پر تشدد میں ملوث ملزمان کا ڈیٹا جمع کرنے کے لئے قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے، قرارداد کے مطابق بچوں پر تشدد کرنے والے عادی ملزمان کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔

پیپلزپارٹی کی خاتون ایم پی اے نگہت یاسمین اورگزئی کیجانب سے پیش کی گئی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایسے عادی ملزمان تک پہنچنے کے لئے ایک سنٹرلائزڈ ڈیٹا سسٹم قائم کرنا چاہئے جس سے ان عادی ملزمان تک رسائی ممکن ہو سکے۔

نگہت اورگزئی نے اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا کہ گزشتہ سال 2 ہزار 960 بچے اغوا ہوئے، زیادہ تر بچے ابھی تک بازیاب نہیں ہوئے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، بچہ اغوا ہو جائے تو والدین ذہنی کوفت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اغواکاروں کی گرفتاری کے لئے جدید طریقوں سے تحقیقات ہونی چاہئیں۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں پشاور ہائیکورٹ کے وکیل سیف اللہ محب کاکاخیل ایڈوکیٹ نے بتایا کہ ایسے عادی ملزمان کا ڈیٹا اکٹھا کرنا اچھی بات ہے، بچوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی روک تھام کے لئے اب سنجیدہ اقدامات اٹھانا ہوں گے، ”ملزمان کا ڈیٹا موجود ہو تو اس سے ایسے واقعات میں ملوث ملزمان تک رسائی آسان ہوگی اور یہ پتہ بھی چلے گا کہ کون سے علاقے میں کس نوعیت کے جرائم ہوتے ہیں، اگر کوئی واقعہ ہو جائے اور اس علاقے کے عادی ملزمان کا ڈیٹا موجود ہو تو طریقہ واردات سے اندازہ لگانا کچھ حد تک آسان ہو گا کہ مبینہ طور پر کون سے ملزمان اس میں ملوث ہو سکتے ہیں، بچوں پر تشدد کے واقعات افسوسناک ہیں اور اس کے تدارک کے لئے فوری اقدامات ہونے چاہئیں۔

ممبر صوبائی اسمبلی اختیار ولی نے بتایا کہ پولیس نظام میں اصلاحات کے بغیر جرائم پر قابو پانا مشکل ہے، پولیس اہلکاروں سے اضافی ڈیوٹی لی جاتی ہے، اہلکار 48 گھنٹے ڈیوٹی دیتے ہیں جس کی وجہ سے پولیس اہلکار خود منشیات کے استعمال پر مجبور ہو گئے ہیں، ”پولیس کے اوقات کار اور مراعات کا جائزہ لینا ہو گا۔”

نگہت اوگرزئی نے بتایا کہ ”8 ماہ قبل کمسن بچی زینب اغوا کیا گیا جو تاحال بازیاب نہیں ہوئی، جو بچے اغواء ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر بچے بازیاب نہیں ہوئے۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button