خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویوکورونا وائرس

خیبر پختونخوا، لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد کے 390 واقعات، ”تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے”

 کائنات

”لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہم دونوں کی نوکریاں چلی گئیں اور دیگر متاثرہ لوگوں کی طرح ہم بھی گھر بیٹھے بچوں کی سکول فیس اور دیگر ضروریات پوری کرنے میں مشکلات سے دوچار ہو گئے۔

نوکری جانے کی وجہ سے میرے شوہر کافی پریشانی میں مبتلا ہوئے اور اس کے اثرات مجھ پر ذہنی اور جسمانی تشدد کی شکل میں ظاہر ہونا شروع ہوئے جس کے باعث میری زندگی عذاب بن گئی۔”

مردان کے علاقہ مصری آباد سے تعلق رکھنے والے تین بچوں کی ماں اور پرائیوٹ سکول کے استانی عالیہ خان کی زندگی پچھلے کئی مہینوں سے بہت مشکلات سے دوچار ہوئی ہے کیونکہ کورونا وائرس کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے عالیہ خان اور ان کے شوہر کی نوکری چلی گئی تھی جس کے اثرات ان کی زندگی پر پڑے اور وہ ان کی خوشیوں بھری زندگی گھریلو لڑائی جھگڑے کی نذر ہو گئی۔

واضح رہے کہ آج ہی خیبر پختونخوا اسمبلی میں خواتین پر گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل منظور کیا گیا ہے۔

صوبائی وزیر سماجی بہبود ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان کے مطابق خواتین پر تشدد کرنے والے کو پانچ سال تک قید کی سزا ہو گی جبکہ معاشی، نفسیاتی و جنسی دباو خواتین پر تشدد کے زمرے میں آئیں گے۔

عالیہ خان کے مطابق شوہر اور بیوی کی نوکریاں جانے کے بعد نہ صرف وہ دونوں خود متاثر ہوئے بلکہ ان کے گھریلو ماحول کا منفی اثرا ان کے بچوں پر بھی پڑ گیا۔

کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے معاشی اثرات سے نہ صرف عالیہ اور ان کے گھر والے متاثر ہوئے ہیں بلکہ اس سے پوری دنیا بھی متاثر ہوئی ہے۔

سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے معاشی اثرات کا زیادہ اثر معاشرے کے کمزور طبقے، بچوں اور خواتین پر پڑا ہے۔

خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی سماجی کارکن طاہرہ کلیم کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جب کورونا وائرس کی وجہ سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ ہوا اور مرد گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہوئے تو اس دوران گھریلو تشدد میں پچیس فیصد اضافہ ہوا۔

طاہرہ کلیم کے مطابق گھر میں بیٹھنے کی وجہ سے زیادہ تر مرد ذہنی صورتحال کافی متاثر ہوئی تھی تو اس وجہ سے گھر میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ سامنے آیا ہے اور اس کے علاوہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے بھی لوگ کافی پریشانیوں میں مبتلا ہوئے تھے۔

دنیا بھر کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی بیشتر رشتے دشمنی اور طلاق میں تبدیل ہوئے ہیں جس کی وجہ سے طلاق یافتہ جوڑوں کے بچوں پر بھی کافی برا اثر پڑا ہے۔

مردان کے علاقے بخشالی سے تعلق رکھنے والی نسرین بھی ان خواتین میں شامل ہیں جو کورونا وباء کے دوران گھریلو تشدد کی وجہ سے تنگ آ کر شوہر سے روٹھ کر میکے چلی گئی ہے۔

نسرین کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران جب ان کے شوہر کی دکان بند ہوئی تو اس کا شوہر ہر روز گھر میں لڑائیاں کرتا تھا جس کی وجہ سے وہ تنگ آ کر میکے چلی گئی اور بعد میں شوہر نے اسے طلاق دیدی۔

غیرملکی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد کے 390 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جس کی بڑی وجہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے زورگاری کی شرح میں اضافہ ہونا ہے تاہم دوسری جانب خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی سماجی کارکنوں کا دعوی ہے کہ گھریلو تشدد کے واقعات رپورٹ شدہ تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

ہشام انعام اللہ خان کے مطابق بل کے تحت ضلعی تحفظاتی کمیٹی بنائی جائے گی، کمیٹی متاثرہ خاتون کو طبی امداد، پناہ گاہ، معقول معاونت فراہم کرے گی، اس کے علاوہ گھریلو تشدد کے واقعات کی رپورٹنگ کیلئے ہیلپ لائن قائم کی جائے گی، تشدد ہونے کی صورت میں 15 دن کے اندر عدالت میں درخواست جمع کرائی جائے گی جو دو ماہ میں کیس کا فیصلہ کرنے کی پابند ہو گی، عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی پر بھی 1سال قید اور 3 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button