سٹیزن جرنلزمقبائلی اضلاع

باجوڑ: ہائی سکول میں 5 جماعتوں کے لیے صرف دو استانیاں

 

سٹیزن جرنلسٹ حضرت یوسف دانش

ضلع باجوڑ کے علاقے شموزئی میں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول میں مڈل سکیشن کے لیے استانیوں کی منظوری نہ ہونے کی وجہ سے طالبات کو مشکلات کا سامناہے۔

مقامی ملک رحمان الدین کے مطابق گورنمنٹ گرلز ہائی سکول شموزئی میں نہ صرف مڈل سکیشن کے لیے اساتذہ کی منظوری تاحال نہ ہوسکی بلکہ ہائی سکول میں بھی صرف دو استانیاں ہیں جو نہیں کرسکتی کہ طالباتو کو صحیح پڑھا سکیں۔

ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران ان کا کہنا تھا ” گورنمنٹ گرلز ہائی سکول شموزئی کی ہائی سکیشن کی منظوری 7 جنوری 2013 کو آگئی تھی لیکن اس میں غلطی یہ ہوئی کہ مڈل کا جو حصہ ہے اس کی منظوری نہیں آئی اس کے بعد ہم نے بہت کوششں کیں لیکن ابھی تک مڈل سکول کے لیے استانیوں کی منظوری نہیں ہوئی”

ملک رحمان الدین نے کہا کہ سکول میں طالبات کی تعداد زیادہ ہے کیونکہ یہ علاقے کا واحد ہائی سکول ہے لیکن استانیاں صرف دو ہیں جس کی وجہ سے طالبات کو پڑھنے میں مشکلات درپیش ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ چند دن پہلے بھی باجوڑ میں مڈل سکولوں کی منظوری ہوئی ہے تاہم ان میں شموزئی کا یہ سکول شامل نہیں ہے جو کہ علاقے کی بچیوں کے ساتھ زیادتی ہے۔

مقامی ذرائع کے مطابق شموزئی میں موجود یہ سکول پہلے پرائمری تھا جس کو بعد میں ہائی سکول کا درجہ دے دیا گیا اور اس کی عمارت 2008 میں مکمل کرلی گئی تاہم مڈل سکیشن کے لیے اساتذہ کی منظوری نہ ہونے کی وجہ سے انکی بچیاں مشکلات کا شکار ہیں۔

ایک دوسرے مقامی شخص واجد انور نے ٹی این این کو بتایا کہ مڈل سکول کی عمارت بنی ہوئی ہے اور مڈل کی بچیاں سکول بھی جاتی ہیں تاہم سٹاف کی منظوری نہ ہونے کی وجہ سے مقامی طالبات میں مایوسی پھیل گئی ہے۔ واجد انور اور ملک رحمان الدین نے حکومت، محکمہ تعلیم اور علاقے کے منتخب نمائندوں سے اپیل کی ہے شموزئی ہائی سکول میں مڈل سیکشن کے لیے اساتذہ کی منظوری دی جائے اور ہائی سکول میں استانیوں کی کمی کو دور کیا جائے تاکہ علاقے کی بچیاں پڑھ لکھ کراپنے علاقے اور ملک کا نام روشن کرسکیں۔

دوسری جانب راغگان سکول کے پرنسپل اور محکمہ تعلیم باجوڑ کے کمیٹی ممبرشرین زادہ نے ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود باجوڑ میں سکولوں کی حالت ابترہے اور طلباء کی تعداد زیادہ جبکہ سکولوں کی تعداد کم ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پہلے قبائلی اضلاع وفاق کے زیر انتظام ہوا کرتے تھے، ان کا بجٹ سیفران کے پاس ہوا کرتا تھا تو جب سکول تیار ہوجاتے تھے تو محکمہ تعلیم اس کے سینکشن کے لیے سیفران کو لکھتے تھے لیکن بدقسمتی سے سیفران سست روی سے کام کرتا تھا اور اس کے مسائل بہت پیچیدہ تھے جس کی وجہ سے 2003 میں بننے والے سکولز بھی ابھی تک فعال نہ ہوسکیں اور انکی عمارتیں بھی خستہ حال ہوچکی ہے لیکن امکان ہے کہ اب انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں شامل ہونے سے اس عمل تیز ہوجائے۔

شرین زادہ نے کہا” باجوڑ میں اس وقت 643 پرائمری، مڈل اور ہائی سکول موجود ہے حالانکہ آبادی کے تناسب سے 1200 سکولز چاہیئے، اسی طرح ہمارے پاس 1800 اساتذہ موجود ہے لیکن ہمیں 4200 اساتذہ چاہیئے سکولز اور اساتذہ کی کمی وجہ سے باجوڑ تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے رہ گیا ہے”

انہوں نے کہا باجوڑ میں اکثر سکول ایسے ہیں جہاں تعداد زیادہ اور اساتذہ کم ہے جس کی وجہ سے یہاں تعلیمی معیار خراب ہے۔ انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس وقت باجوڑ میں 1 ہایئر سکینڈری سکول موجود ہے حالانکہ آبادی کے تناسب سے 11 ہایئرسکینڈری سکول کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا باجوڑ میں سکولوں اور اساتذہ کی کمی دور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button