سٹیزن جرنلزمفیچرز اور انٹرویوقبائلی اضلاع

جوانسال بیٹے کیلئے انصاف کی متلاشی ماں کو دوسرے بیٹے کی لاش بھی مل گئی

سی جے رضیہ محسود

پاکستان کے قبائلی ضلع وزیرستان میں مٹک خیل قبیلے کی ایک عورت اپنے دو بیٹوں کے قتل کے خلاف انصاف کے لئے سڑکوں پر نکل آئی۔

اس ماں نے چند روز پہلے بھی اپنے بیٹے کی تصویر ہاتھ میں لیکر مدد مانگی تھی مگر اس کو مدد نہ مل سکی، گذشتہ روز انہیں دوسرا بیٹا زندہ ملنے کے بجانے ایک کنویں سے اس کی لاش مل گئی۔ یہ عورت چند سال پہلے بھی ایسے ایک واقعے میں اپنے ایک جوان سال بیٹے کو کھو چکی تھی اور غلام حسین ان کا دوسرا اور آخری بیٹا تھا جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر قتل کر دیا گیا۔

غلام حسین کے قتل کے بعد اس کی ماں اب اپنے ایک اکلوتے پوتے کی جان کی بھیک مانگنے کیلئے وانا کیمپ کے باہر بیٹھ کر احتجاج اور اعلی حکام سے اپنے بیٹے کیلئے انصاف اور اپنے پوتے کی حفاظت کی اپیل کرنے لگی ہے۔

وزیرستان جیسے علاقے میں ایک خاتون سڑک پر آنے پر کیوں مجبور ہوئیں؟ یہ بہت غور طلب سوال ہے۔

جنوبی وزیرستان خاص کر وانا کی اگر بات کی جائے تو یہاں پر عورتوں کی تعلیمی شرح بہت کم ہے اور یہاں کے لوگ عورتوں پر کچھ ذیادہ پابندیاں لگاتے ہیں، عورتوں کے معاملے میں بہت حساس ہیں مگر آج انہی علاقوں سے ایک ماں پریس کانفرنس کرنے نکلی جس کی کسی نے نہ سنی اور نہ ہی اعلی حکام نے نوٹس لیا اور نہ ہي اس علاقے کے مشران کو يه خيال آيا کہ ایک وزيرستانی ماں میڈیا پر آ کر کیوں فریاد کر رہی ہے۔

اس سے قبل ادھکہ نامی ایک 76 سالہ خاتون نے جب اپنے علاقے اور مشکلات کے حوالے سے آواز بلند کی تھی تو اس بوڑھی ماں کو لے کر سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کر دیا گیا تھا، ایک شور اٹھا کہ وزیرستان کی عورتوں کو اس طرح میڈیا پر نہیں لانا چاہیے۔ اب جبکہ ایک ماں انتہائی مجبوری، انتہائی بے بسی کی حالت میں وانا پریس کلب کا رخ کرتی ہے اور اپنے بیٹے کی مدد کی اپیل کرتی ہے تو وہ لوگ جو ہر بات کو غیرت کے ساتھ جوڑ کر پیش کرتے ہیں آج وہ لوگ کہاں ہیں؟ کہاں ہے ان کا انصاف، کہاں ہے ان کی غیرت؟

اب وہی وزیرستان کی ایک ماں اپنے بیٹے کی فوتگی کی رسومات تو ادا نہ کر سکی لیکن انصاف اور اپنے پوتے کی مدد کی اپیل کیلئے اکیلی دھرنا دینے بیٹھ گئی ہے، تو کہاں ہیں ہمارے مشران؟ کہاں ہے ہماری ضلعی انتظامیہ؟ کہاں ہیں ہمارے ایم این اے، ایم پی اے، کہاں ہے پولیس، کہاں ہیں وہ لوگ جو عورتوں کو جائیداد میں حصہ دینے سے محروم تو رکھ سکتے ہیں، عورتوں کو تعلیم سے محروم تو رکھ سکتے ہیں، عورتوں کیلئے آواز بلند کرنے والوں پر الزامات تو لگا سکتے ہیں، عورتوں کی جرگہ میں شمولیت پر اعتراضات تو کر سکتے ہیں، عورتوں کی آواز پر اعتراض تو کر سکتے ہیں یہاں تک کہ عورتوں کی نوکری کرنے، عورت کے گھر سے نکلنے پر ان کے بیانات آتے ہیں، اب وہ لوگ کیوں خاموش ہیں، وہ لوگ بیانات کیوں نہیں دے رہے، وہ لوگ اس عورت کو تحفظ کیوں فراہم نہیں کر رہے، وہ لوگ اس عورت کے ساتھ ہونے والے ظلم پر کیوں خاموش ہیں؟

انسانی حقوق کی تنظمیں کیوں اس عورت کی آواز نہیں سن رہیں؟ وزیرستانی عورت آخر اتنی کمزور کیوں ہے؟ وزیرستانی عورت اج اتنی اکیلی کیوں ہے؟ غلام حسین کی اس باہمت ماں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگا کہ اپنے بیٹے کی ایک کنویں سے انتہائی خراب حالت میں لاش برآمد کرنے کے بعد بھی اپنے گھر کو تالا لگا کر پیوندہ کے ساتھ رہنے پر مجبور ہے، اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی وہ ضلعی انتظامیہ، ایم این اے، ایم پی اے، کور کمانڈر، گورنمنٹ خیبر پختونخواہ سے امید لگائے بیٹھی ہے اور مدد کی اپیل کر رہی ہے۔

آج اس بے بس وزیرستانی ماں کو دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ وزرستانی عورت اتنی بے بس و مجبور ہے، اتنی اکیلی ہے کہ اس کی آواز کسی کو سنائی نہیں دے رہی، اس کی آواز سن کر بھی ہم سب خاموش، گونگے بہرے، انجان بنے ہوئے ہیں اخر کیوں؟ کیا ہم صرف عورت کا اس حد تک ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں کہ اس پر پابندیاں عائد کی جائے؟ کیا یہ ہماری غیرت نہیں؟ کیا یہ ہماری ماں، بہن اور بیٹی نہیں؟ کیا یہ وزیرستانی نہیں؟

شمالی وزیرستان میں ہماری ایک بہن ڈیوٹی سے واپسی پر قتل کر دی جاتی ہے اور ہم خاموش تماشائی اور اس کے قتل کو یہ کہہ کر بھول جاتے ہیں کہ وہ کسی این جی اوز یا دفتر میں نوکری کیوں کر رہی تھی، اسلام میں عورت کا گھر سے نکلنا حرام ہے۔

وزیرستان میں چار لڑکیوں کے سکینڈل کو بڑھا چڑھا کر غیرت کا نام دے کر ایکشن لیا جاتا ہے اور اس کو نیٹ یا موبائل کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور سب ایک ہو جاتے ہیں اور قومی جرگہ میں ایم پی اے کو یہ کہہ کر جرگہ سے نکال دیا جاتا ہے کہ وہ ایک خاتون ہے اور یہ کہ اس جرگہ میں عورت نہیں بیٹھ سکتی۔

لیکن اب تو سوال ایک ایسی عورت کا ہے جو نہ تو نوکری کرتی ہے نہ اس کے پاس موبائل ہے، اس کے پاس نہ تو نیٹ ہے نہ وہ جرگہ میں بیٹھتی ہے، نہ وہ تعلیم مانگتی ہے نہ تو وہ قبائلی رسم و رواج کو توڑنے کا ہنر جانتی ہے نہ وہ کسی این جی اوز میں ہے اور نہ ہی کسی تنظیم کے ساتھ جسے آڑ بنا کر اس معاملے پر بھی چپ سادھ لی جائے۔

وانا میں باقی معاملات میں مشران کا کافی اتحاد و اتفاق دیکھنے کو ملتا ہے مگر آج ایک عورت وہاں اکیلی کھڑی ہے اس کے لئے کوئی جرگہ نہیں ہوا، کوئی اتفاق دیکھنے کو نہیں ملا کیا، اس وجہ سے کہ وہ عورت غریب ہے اور اس کا سوائے اس چھوٹے پوتے کے اس پوری دنیا میں اور کوئی نہیں؟

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button