بلاگز

سب ڈویژن حسن خیل کے سرکاری سکولوں میں تعلیمی سہولیات کا فقدان

سی جے شمائلہ آفریدی

کسی بھی قوم اور معاشرے کی ترقی میں تعلیم کو ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت حاصل ہے اور جس معاشرے میں تعلیم کی سہولیات میسر ہوں اور لوگ تعلیم یافتہ ہو تو وہ معاشرہ تیزی سے ترقی کی راہ پرگامزن ہوجاتا ہے۔ بدقستمی سے ہمارے ملک میں حکمران تعلیم عام کرنے کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن سہولیات دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ مثال کے طور کہیں اساتذہ کی کمی ہوتی ہے تو کہیں پر پانی اور بجلی کا مسئلہ ہوتا ہے جبکہ کئی سکولوں کی عمارتیں خستہ حال ہیں۔

تعلیمی میدان میں سہولیات کی کمی ہرجگہ کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہے۔ بات تعلیم کی ہو رہی ہے تو اگر ہم سابقہ ایف آر پشاور موجودہ سب ڈویژن حسن خیل میں تعلیمی نظام کے ڈھانچے کا مشاہدہ کریں تو یہاں سکولوں کا انفراسٹرکچر تباہ ہے اور تعلیمی سہولیات کا  فقدان ہے، اس حالتِ زار میں بچوں کا تعلیم جیسی نعمت سے محروم ہونا ایک فطری امر ہے۔

سب ڈویژن حسن خیل پشاورجو کہ چار اقوام / قبیلوں پر مشتمل ھے یعنی اشوخیل، حسن خیل، جناکوڑ اور جواکی، یہاں کے لوگ انتہاٸی پرامن اور محب وطن غیور قباٸل ھیں۔ وطن عزیز کے معرض وجود میں انے کے بعد یہ لوگ دیگر قباٸیلی علاقوں کی طرح ایک فرسودہ اور کالے قانون ایف سی آر کے تحت زندگی گزارتے رہے جس کی رو سے ایک فرد کے جرم کی سزا پوری قوم کو ملتی تھی۔

چھپن ہزار آبادی  پر مشتمل اس سب ڈویژن کا انتہاٸی خوبصورت علاقہ بوڑہ ہے جہاں صرف ایک نجی اسکول ہے اور سرکاری اسکولوں کی تعداد 9 ہیں جن میں 5  بوائز سکول ہیں اور 4 گرلز سکول ہیں، سکولوں میں مرمت کاکام نہ ہونے کی وجہ سے بدترین خستہ حالی کا شکار ہیں۔ بوائز سکولوں میں براۓ نام  تعلیم دی جاتی ہے اور گرلز اسکولز کی حالت بھی ان سے حد درجہ تعلیمی پستی کا شکار ہے۔ علاقے میں کوئی مڈل سکول نہ ہونے کی وجہ سے طالبات پر پراٸمری کے بعد علم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ علاقے میں دہشتگردی کی بدترین لہر کے دوران گورنمنٹ ہاٸی سکول بوڑہ (بواٸز) ، گورنمنٹ پراٸمری سکول (بواٸز) اور گورنمنٹ گرلز اسکول مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ حکومت تعلیمی ایمرجنسی کے بڑے بڑے دعوے کرتی ہے مگرتاحال یہ ادارے تعمیر نہیں ہوسکے۔ بعض سکولوں کی تو چار دیواری ہی نہیں ہے سردی ہو یا گرمی طالبِ علم بغیر چھت کے نیچے بیٹھ کر پڑھنے پرمجبور ہیں۔

پرائمری سکولوں کی بات کریں تو ان سکولوں کی حالت ایسی ہیں کے ہر جماعت کے لیے دو دو ٹیچرز کو زمہ داری دی جاتی ہے پر اساتذہ کرام اپنی حاضری روزانہ کی بنیاد پر یقینی نہیں بناتے جس کی وجہ سے نصاب مکمل نہیں ہوتا اور بچے امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں اور آہستہ آہستہ انکا تعلیمی سلسلہ جو دھکے کے زور پر چل رہا ہوتا ہے وہ بھی رک جاتا ہے۔

سرکاری سکولوں کی اساتذہ تعلیم یافتہ اور قابلیت سے سرشار ہیں اور ان کی تنخواہیں بھی پُرکشش ہیں ہے تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی سہولیات کے باوجود بھی سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم اتنی کمزور اور پست کیوں ہیں؟اس تمام عمل میں ہم صرف ایک ہی پہلو کو قصور وار ٹہراتے ہیں۔ محکمہ تعلیم ہمارے نظر میں مجرم ہے مگر یہاں اساتذہ اور حکمرانوں کے ساتھ ساتھ والدین بھی برابر کے شریک ہیں کیونکہ جو خاموش ہیں وہ بھی مجرم ہیں، اس پر ہماری خاموشی کیوں؟

سہولیات کا فقدان ، امتحانات کا ناقص نظام ، ایجوکیشن آفیسرز کی جانب سے سکولوں کی سروے کا غیر فعال نظام ، طلباء کو کتب معیار فراہم نہ کرنا ، اساتذہ کے ان تمام مجرمانہ حرکتوں کی وجہ سے سرکاری سکولوں میں تعلیم کا جنازہ اٹھایا جارہا ہے۔ اگر ایک جانب محکمہ تعلیم ذمہ دار ہے تو دوسری طرف اساتذہ نے ان تمام کسرات کو مکمل کردیا ہے، اساتذہ کی اس منفی کردار کی وجہ سے معیار تعلیم پر بُرے اثرات پڑ رہے ہیں۔ قبائل کے بچوں کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہے بچوں کے والدین انہیں خوشی خوشی سکول بھی بھیجتے ہیں مگر اساتذہ کی غفلت کی وجہ سے بچے کھیل کود میں دن گزار دیتے ہیں، بچوں کی مستقبل کا ذمہ دار کس کو ٹہرایا جائے؟غریب والدین معاشی حالات کی وجہ سے بچوں کو پرائیوٹ سکولوں میں نہیں بھیج سکتے اور دوسری جانب سرکاری تعلیم کا نظام برباد ہورہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سب ڈویژن حسن خیل میں تعلیمی معیار پر اور بلخصوص بوڑہ،  پستاونی  اور موسی درہ میں تعلیمی اداروں کے عمارتوں اور تعلیمی معیار پر توجہ مرکوز کی جائے اور اساتذہ  کی حاضری کو یقینی بنایا جائیں اور جو اساتذہ اپنی ڈیوٹی صحیح نہیں کرتے انکے خلاف کاروائی کی جائیں تاکہ ہر بچہ اور بچی تعلیم حاصل کرسکے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button