مندروں پے مہربان اور گردواروں سے انجان
اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ملک بھرمیں 327 گردوارے تھے لیکن آج 27 گردوارے بھی نہیں کہ ان میں سے بیشتر کو بیچ کر شادی ھال یا پلازہ اور دوسری بلڈنگز بنا دی گئی ہیں۔
رادیش سنگھ ٹونی
متروکہ وقف املاک بورڈ پاکستان کا وہ ادارہ ھے جو کرائے کی مد میں ملک بھر سے سالانہ اربوں کی کمائی کے علاوہ ہرسال سکھ کمیونٹی کے دو بڑے فنکشنز سے بھی کروڑوں روپے بٹورتا ھے لیکن جب کہیں کسی گردوارے میں مرمت کے کام پر محض چند لاکھ روپے بھی لگانے پڑجائیں تو اس کو موت پڑتی ھے۔
اس کی بہتر مثال گردوارہ بھائی جوگا سنگھ (جوگن شاہ) ھے جس کے لئے کئی مرتبہ درخواستیں پیش کیں لیکن آج تک ظفل تسلیوں کے علاوہ کچھ نہیں ھوا۔
سکھ کمیونٹی کے دوسرے گردوارے بھائی بیبا سنگھ کی مرمت اور تزئین و آرائش کا کام بھی پشاور، باڑہ، سوات، پارہ چنار اور تیراہ برادری نے اپنی مدد آپ کے تحت مکمل کیا جس پر 1 کروڑ 35 لاکھ روپے خرچہ آیا لیکن سوائے جھوٹ کے پلندے کے اوقاف سے کچھ نہ ملا۔
اوپر سے ملک کے دوسرے گردواروں کے لئے دنیا بھر کی سکھ کمیونٹی سے چندہ جمع کرنے میں کوئی شرم کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔
لیکن بر عکس اس کے اگر کسی مندر پر خرچ کرنا ھو تو ھندوستان کے شور کے خوف سے بلا دریغ کر دیتا ھے حالانکہ پورے پاکستان کے مندروں کی سالانہ آمدن 100000 روپے سے بھی کم ہے جبکہ سکھ کمیونٹی کے گردواروں سے کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے پھر بھی اس بارے 1999 میں بنائی گئی پاکستان سکھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی تک کو آج تک حساب بتانے سے گریز ہی کیا جاتا رہا ہے۔
اس ادارے نے اپنے لئے اپنا قانون بنایا ھے جو خود کو سپریم کورٹ کے آگے بھی جوابدہ نہیں سمجھتا بلکہ ادارے کے وسیع تر مفاد میں ہندوؤں اور سکھوں کی مہنگی جائیدادیں تک فروخت کر دی گئی ہیں۔
اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ملک بھرمیں 327 گردوارے تھے لیکن آج 27 گردوارے بھی نہیں کہ ان میں سے بیشتر کو بیچ کر شادی ھال یا پلازہ اور دوسری بلڈنگز بنا دی گئی ہیں یا آج بھی ان بلڈنگز پر مسلمانوں بھائیوں کا قبضہ ھے۔
ملک کے تمام صوبوں میں محمکہ اوقاف کے دفاتر موجود ہیں اقلیتی امور کے ساتھ ملکر جو کام کرتے ہیں ھر سال حکومت کی طرف سے بجٹ میں اقلیتوں کے لیے مختص فنڈ سے کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں جن میں کچھ طلبا اور بیواؤں کے فنڈز شامل ہیں لیکن اگر ھم بات کریں صوبہ میں دھشتگردی سے ھلاک ھو جانے والے افراد کی تو اس سلسلے میں محمکہ اوقاف کی نا اہلی صاف طور پر ظاہر ھوتی ھے۔
اگر گزشتہ کئی سالوں پر نظر ڈالیں تو پشاور میں ٹارگٹ کلنگ میں ایک ایم پی اے سمیت 10 افراد جاں بحق ہوئے لیکن سوائے ایم پی اے صاحب کے کسی بھی شخص کو شہدا پیکج نہ مل سکا شاید اس کے لئے منسٹر یا بڑا آدمی ھونا ضروری ھے جبکہ انصاف کا بیڑا اٹھانے والی حکومت لوگوں کو انصاف دینے سے قاصر نظر آتی ھے۔
چرنجیت سنگھ ہی کی مثال لے لیں جنہیں 28 مئی کو ٹارگٹ کلنگ کے ایک واقعے میں قتل کر دیا گیا لیکن پانچ ماہ گزرنے اور سابق نگران وزیراعلیٰ جسٹس (ر) دوست محمد خان کے شہداپیکج سے بھی بڑھ کر مراعات دینے کے وعدوں کے باوجود تاحال متاثرہ گھرانے کے ساتھ کسی طرح کی کوئی امداد نہیں کی گئی۔
چرن جیت سنگھ کی فیملی کا گزر بسر صرف اسی کریانہ سٹور پر ہی ہوتا تھا جسے ان کی فیملی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے فروخت کرنے پر مجبور ہوئی لیکن جنازے سے لیکر آج تک تعزیت کے لئے آنے والے ھر شخص نےسوائے تسلی کے کچھ نہیں دیا۔
کچھ غریب خاندانوں کی نگاہیں حکومتی وعدوں کی منتظر ہیں اور شاید منتظر ہی رہیں گی۔
ایسے میں امید ہی کی جا سکتی ھے کہ موجودہ حکومت اور اقلیتی ایم پی اے صاحبان اس غریب خاندان کی داد رسی ضرور کریں گے اور انہیں انکا حق ضرور دیں گے۔
نوٹ: مضمون نگار پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور سکھ کمیٹی آف پاکستان کے چیئرمین ہیں۔