میڈیا میں تربیت یا تعلقات؟ نئے صحافیوں کے لیے مواقع کب آئیں گے؟

رعناز
میڈیا کا شعبہ ایک ایسا شعبہ ہے، جہاں سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ بدلتے ہوئے عالمی رجحانات، تیز رفتار ڈیجیٹل ایجادات اور بدلتی ہوئی صحافتی اخلاقیات نے اس میدان کو مزید چیلنجنگ بنا دیا ہے۔ ان چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے میڈیا ٹریننگز کو نہایت اہم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان ٹریننگز میں مسلسل ایک مخصوص طبقے یا چند چہروں کی اجارہ داری قائم ہو چکی ہے۔ نئے لوگوں کو مواقع نہ ملنے کی وجہ سے نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ ترقی رک جاتی ہے بلکہ مجموعی طور پر میڈیا انڈسٹری کی ترقی بھی متاثر ہوتی ہے۔
یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ آخر کیوں ہر میڈیا ٹریننگ، ورکشاپ یا سیمینار میں وہی 6-8 لوگ نظر آتے ہیں؟ اگر ہم پچھلے پانچ سالوں کی بڑی میڈیا ٹریننگز کا جائزہ لیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ تقریباً 70 فیصد سیشنز میں ایک ہی گروپ کے لوگ یا تو بطور اسپیکر یا شرکاء کے طور پر مدعو کئے جاتے ہیں۔ یہ لوگ یا تو بڑے شہروں سے ہوتے ہیں، یا ان کا تعلق کسی بڑے چینل، مشہور این جی او، یا بین الاقوامی ادارے سے ہوتا ہے۔ کیا عجیب اتفاق ہے نہ۔
مثال کے طور پر، اسلام آباد میں ہونے والی ایک معروف ڈیجیٹل میڈیا ٹریننگ میں، پچھلے تین سالوں سے تقریباً وہی اسپیکرز مدعو کئے جا رہے ہیں۔ یہ اسپیکرز یقینی طور پر اہل ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئے لوگ سیکھنے یا سکھانے کے قابل نہیں؟
جب نئے صحافی، بلاگرز، اور میڈیا سٹوڈنٹس کو موقع نہیں دیا جاتا تو اس کا پہلا اور سب سے خطرناک اثر ان کی صلاحیتوں کے زنگ آلود ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ میڈیا ایک عملی میدان ہے، اور یہاں کلاس روم کی تھیوری کافی نہیں ہوتی۔ اگر کسی نوجوان کو بار بار نظر انداز کیا جائے گا، تو وہ نہ صرف حوصلہ ہارے گا بلکہ ممکنہ طور پر اس شعبے کو خیر باد کہہ دے گا۔ جو کہ آج کل ہو بھی رہا ہے۔
میری ایک سہیلی جو کہ جرنلزم کی سٹوڈنٹ ہے، نے مجھے بتایا میں نے تین مختلف میڈیا ٹریننگز میں اپلائی کیا، لیکن ہر بار مجھے یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ آپ کا کام کرنے کا تجربہ نہیں ہے۔ بعد میں میں نے دیکھا کہ منتخب ہونے والے افراد پچھلی ورکشاپس میں بھی موجود تھے۔ یہ صرف میری سہیلی کی کہانی نہیں، ایسے درجنوں نوجوان ہیں جو مواقع کی کمی کا شکار ہو کر پیچھے رہ جاتے ہیں۔
کیا ہم نے کھبی یہ سوچا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ آئیے میں آپ کو بتاتی ہوں۔ میڈیا انڈسٹری میں نیپوٹزم (اقربا پروری) اور "ریفرنس کلچر” نے گہرے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ اگر کسی کی جان پہچان ہے یا وہ پہلے سے کسی ادارے سے وابستہ ہے، تو اس کا انتخاب خود بخود ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس، نئے اور آزاد صحافی یا طلباء کے لیے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔
کئی ٹریننگز کی سلیکشن کمیٹیاں شفافیت سے خالی ہوتی ہیں۔ ان کے پاس کوئی واضح معیار نہیں ہوتا کہ کس کو چُنا جائے اور کیوں۔ اس کے علاوہ، اکثر ٹریننگز کا اشتہار یا تو بند حلقوں میں پھیلایا جاتا ہے یا ان کا اعلان ہی نہیں کیا جاتا۔
اس مسئلے کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ ہر ٹریننگ ادارے کو چاہیے کہ وہ اپنی ورکشاپ یا پروگرام کے لیے کھلا، عوامی اعلان کرے اور تمام امیدواروں کو برابر کا موقع دے۔ سلیکشن کے لیے باقاعدہ معیار اور اسکورنگ سسٹم ہو، تاکہ ذاتی پسند و ناپسند شامل نہ ہو۔ ہر تربیتی سیشن میں کم از کم 50% نشستیں ایسے افراد کے لیے مختص کی جائیں جو پہلی یا دوسری بار شرکت کر رہے ہوں۔ صرف بڑے شہروں سے نہیں بلکہ بلوچستان، جنوبی پنجاب، اندرونِ سندھ، اور خیبر پختونخواہ کے اضلاع سے بھی شرکاء لیے جائیں۔ خواتین، فری لانسرز، فیلڈ رپورٹرز، اور مقامی صحافیوں کو ترجیح دی جائے۔
میڈیا ٹریننگز صرف چند افراد کی جاگیر نہیں ہونی چاہییں۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہیے جہاں ہر اہل اور پُرعزم فرد کو سیکھنے اور آگے بڑھنے کا موقع ملے۔ اگر ہم اس اجارہ داری کو نہ توڑ سکے، تو آنے والے وقت میں ہمارے میڈیا ادارے جمود کا شکار ہو جائیں گے، اور اصل ٹیلنٹ صرف دروازے کے باہر کھڑا رہ جائے گا۔ ہمیں اب ایک اجتماعی شعور کے ساتھ سوچنا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ ہم تربیت کے کلچر کو جامع، شفاف اور منصفانہ بنائیں تاکہ آنے والا میڈیا کل، آج سے بہتر میڈیا ہو۔