بلاگزلائف سٹائل

یہ کیسی مہنگائی ہے جو صرف عوام کو تنگ کرتی ہے؟

ارم رحمٰن

31 جولائی 2022 میں مہنگائی کی شرح 9.7 فیصد تھی تاہم عذائی قیمتوں میں اضافہ 10.5 تھا، پاکستان میں مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہے جو کبھی کم نہیں ہوتا۔

پچھلے 75 سالوں سے ملک ہر آنے والی حکومت نے یہ ہی پرچار کیا کہ ہم حکومت میں آتے ہی غریب عوام کو سکون کا سانس لینے کا موقع دیں گے، ان کو ضروریات زندگی خالص اور سستی مہیا ہوں گی لیکن اقتدار کی کرسی سنبھالتے ہی وہ زود بدیر ایسے حیلے بہانے بنا کر اشیائے خوردونوش اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں شدید اضافہ کر دیتے ہیں۔

بجلی گیس اور پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمت تو روزانہ ہی مختلف ہوتی ہے اور ایک اکسیر بہانہ کہ آئی ایم ایف کا دباؤ ہے اس لیے حکومت کو بجلی گیس اور پیٹرولیم کے نرخ میں اضافہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ بے چاری پاکستانی حکومت! کتنی مجبور اور بے بس ہے کہ اپنے سوا کسی بھی عوام کی دادرسی نہیں کر پاتی۔

لطف کی بات یہ کہ یہ کیسی مہنگائی ہے جو صرف عوام کو تنگ کرتی ہے امراء اور رؤسا پر اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کی پرتعیش زندگی جوں کی توں رہتی ہے، پیٹرول کی قیمتیں آسمان پر پہنچی ہوئی ہیں لیکن ان کی بڑی بڑی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی پھر رہی ہیں، ان کی اولاد اور رشتے دار دن رات پکنک میں لگے رہتے ہیں، اتنی مہنگائی ہے مگر حکمرانوں، امراء اور وزرا کے بیرون ملک ٹرپ نہیں ختم ہو رہے۔

ایک سوال یہاں یہ بھی اٹھتا ہے کہ عوام کے خون پسینے پر عیش کرنے والے حکمران اندر سے بہت خوفزدہ ہیں کہ مشتعل عوام ان کو کچل نہ ڈالے۔ اور ان کی کارکردگی اور نظریات غریبوں کو غربت کے شکنجے میں مزید جکڑنے کے لیے کارگر ثابت ہوتے ہیں لہذا وہ پروٹوکول کے نام پر گارڈز کا لشکر ساتھ لے کر چلتے ہیں تاکہ کوئی غریب حملہ نہ کر دے کیونکہ جس غربت اور مہنگائی کا سامنا عوام کر رہی ہے وہ کبھی اس تکلیف کا ازالہ تو کیا تصور نہیں کر سکتے۔

بڑی بڑی عالیشان کوٹھیوں، بنگلوں میں رہنے والے تنگ گلیوں کی مشکلات کو کیا سمجھیں، گندی بدبودار گلیاں، غلاظت ابلتے گٹر اور شدید بارش کے وقت بجلی، پانی اور گیس سب بند؛ پینے کا پانی نہیں ہوتا وضو کی تو بات ہی نہ کریں، بارش کا پانی کئی کئی دن کھڑا رہتا ہے، سیوریج سسٹم کبھی ٹھیک ہی نہیں ہوتا اور چند دن کی بارشوں میں کتنی جانیں گٹر اور گندے پانی میں ڈوبنے یا ننگی بجلی کی بے ہنگم طریقے سے لٹکتی تاروں سے کرنٹ لگنے کی وجہ سے ضائع ہوتی ہیں۔

"ڈرائی فروٹ” صرف تصویروں میں دکھائی دیتا ہے، خریدنا عوام کے بس میں نہیں؛ مونگ پھلی، بادام، کاجو، پستہ اب تو خشک میوہ جات کے نام تک بھولنے لگے ہیں، چلغوزہ خریدنا ایسا ہے جیسے سونا خریدنا!

مہنگائی کی وجہ سے جرائم کو بھی بڑھاوا ملتا ہے؛ غریب کا دکھ دوبالا ہو جاتا ہے، بڑی مشکل سے جمع پونجی آن کی آن میں چھن جاتی یے اور اسے بچانے کے چکر میں بسااوقات کئی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ خودکشی جیسے مذموم جرم کا ارتکاب بھی بکثرت نظر آتا ہے، آئے دن خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ غربت سے تنگ بیوہ عورت نے بچوں سمیت نہر میں کود کر خودکشی کر لی یا باپ نے بیوی ںچوں کو زہر دے کر مار دیا پھر خود بھی پنکھے سے لٹک گیا یا جو بھی طریقہ۔۔ کیا یہ سب حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ عوام کو کم از کم بنیادی ضروریات تو فراہم کی جائیں؟

کم از کم اتنا ہی بتا دیں کہ اتنی مہنگائی میں ان کا ذریعہ آمدن کیا ہے؟ ایسا کیا ہنر اور ایسی کیا مہارت ہے کہ صرف وہی پیسہ کمانے کا ہنر جانتے ہیں؟ ایسی کیا گیدڑسنگھی ہے ان کے پاس کہ مہنگائی کے باوجود ان کے اثاثے بڑھتے چلے جاتے ہیں؟

آخر ایک دن وہ راز بھی "لیک” ہو جائے کہ کس طرح ساری قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر مہنگائی کے جن کو قابو میں کیا جاتا ہے؟ اور ایسی ویڈیو وائرل ہو جائے کہ عوام کچھ دنوں میں ہی ہر طرح کی مہنگائی سے نجات پا جائے اور پتھر بھی سونا بن جائے۔

Erum
ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک شاعرہ اور کہانی نویس ہیں، مزاح بھی لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button