بلاگز

”میں پڑھنا چاہتی تھی لیکن 15 سال کی ہوئی تو میری شادی کر دی گئی”

عربہ

”میرا نام عربہ ہے اور میں پندرہ سال کی تھی جب میری شادی ہوئی، میں پڑھنا چاہتی تھی اور کچھ بننا چاہتی تھی، مطلب میری خواہش تھی کہ میں بڑی ہو کر کوئی نہ کوئی نو کری کروں لیکن میری منگنی چھوٹی عمر میں ہی کر دی گئی، تقریباً تیرہ سال کی تھی جب میری منگنی ہوئی، اس وقت میرے سسرال والوں نے ہماری یہ بات مانی تھی کہ بچی پڑھے گی بھی اور لکھے گی بھی، ہم کوئی پابندی اور کوئی اعتراض نہیں کریں گے لیکن جب تک میں ماں باپ کے گھر میں تھی تب تک میں پڑھ رہی تھی مگر پھر وہ لوگ ہمیں نہیں دیکھ رہے تھے اور شادی کرنے کی ضد کر رہے تھے جب آخر میں میرے باپ ان سے تنگ آ گئے تو انہوں نے ان لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ تو شادی کے لئے ضد کر رہے ہو مگر ہماری بھی ایک شرط ہے، انہوںں نے کہا کیا شرط، میرے باپ نے کہا کہ میری شرط یہ ہے کہ شادی کے بعد بھی میری بیٹی اپنی پڑھائی جاری رکھے گی، انہوں نے خوشی خوشی ہاں کر دی کہ ہاں ہمیں آپ کی شرط منظور ہے۔

لیکن جب شادی ہو گئی تو شادی کہ کچھ دن بعد میں نے شوہر سے کہا کہ میں پرچہ دینے سکول جاؤں گی تو شوہر نے غصے میں آ کر کہا کہ کوئی پڑھائی وڑھائی نہیں ہو گی، اپنی کتابیں اور اپنا بیگ جلا دو،اس کی وجہ سے میں اپنا امتحان نہ دے سکی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے گھر والے سب ہم پر بہت ظلم کرتے رہے، مجھے اپنے ماں باپ کے گھر جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے اور کسی سے بات کرنے نہیں دیتے تھے، ہمارے گھر والے ہمارے خاندان والوں کی برائیاں کرتے تھے، مجھے یہ سب سن کر بہت دکھ ہوتا تھا، رات بہت دیر تک چپ چپ کر روتی تھی، رات کو روتی تھی اور دن کو سارا کام کرتی تھی۔

مجھے اس وقت زندگی کو دیکھ کر عجیب سا لگا، جب کوئی بھی لڑکی ماں باپ کے گھر میں ہوتی ہے تو اسے یہ زندگی بہت خوبصورت لگتی ہے، اس کے والدین اس کی ہر چیز کا خیال رکھتے ہیں، ماں باپ اپنی اولاد کو ہر درد ہر غم سے بچا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن سسرال والے۔۔۔ آپ چاہے ان کی جتنی بھی خدمت کرو، جتنا بھی خیال رکھو لیکن پھر بھی وہ لوگ صرف اپنی اچھائی دکھائیں گے، بہوؤں کی کوئی بھی اچھے کام انہیں نظر نہیں آتے، اگر لڑکی بڑی ہو تو پھر وہ حالات کا مقابلہ کر سکتی ہے، وہ ہر بات کو سمجھ سکتی ہے اور جب کسی بھی لڑکی کی شادی چھوٹی عمر میں ہو جاتی ہے تو وہ تو خود ناسمجھ ہوتی ہے اور بہت جلد ہار مان لیتی ہے۔

ہر ماں باپ کو بیٹی کے رشتے ہمیں بہت سوچنا چاہئے اور رشتہ بھی ایسے خاندان میں جوڑنا چاہئے جو ایک دوسرے کے رہن سہن کو اچھے طریقے سے جانتے ہوں اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں کیونکہ لڑکے کے لئے تو یہ کوئی ایسا خاص مسئلہ نہیں، بعد میں سب کچھ عورت کو برداشت کرنا پڑتا ہے، ایک خاندان پڑھنا لکھنا چاہتا ہے اور دوسرا نہیں تو جو لوگ پڑھے لکھے ہوں ان کو جاہل جیسے لوگوں دور ہی رہنا چاہئے کیونکہ بعد میں چاہے کچھ بھی ہو مگر زندگی پھر بھی عذاب جیسے گزرتی ہے۔

پڑھے لکھے لوگوں کو ہر بات کا اخساس ہوتا ہے، وہ بیوی اور بچوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو لوگ گاؤں کے رہنے والے ہوتے ہیں اور پڑھتے نہیں ہیں وہ کسی بھی قسم کا اخساس نہیں کرتے، انہیں کسی کے ہونے یا نا ہونے سے کوہی فرق نہیں پڑتا، اللہ ہر لڑکی کے نصیب اچھے کرے، آمین!

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button