بلاگزعوام کی آواز

ہر طرف ٹک ٹک ٹک کی آوازیں، اور بچوں کے ہاتھوں میں کلیکرز،کھلونا مگر خطرناک ہتھیار

رعناز

لفظ کلیکرز سن کر آپ کے ذہن میں ایک سوال اٹھا ہوگا کہ کلیکرز کیا ہے؟ تو آئیے میں آپ کو بتاتی ہوں کہ کلیکرز کیا ہے۔ کلیکرز بچوں کا ایک کھلونا ہے جو کہ دو پلاسٹک بالز پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان دو پلاسٹک بالز کو دھاگوں میں پرو کر آپس  میں باندھا جاتا ہے۔ جب بچے ان پلاسٹک بالز کو ہوا میں اچھالتے ہیں یا گول گول گھماتے ہیں تو اس سے ٹک ٹک کی آواز نکلتی ہے جس کو بچے بہت ہی زیادہ انجوائے کرتے ہیں۔

اب آپ کے ذہن میں دوسرا سوال یہ اٹھ رہا ہوگا کہ میں آخر اس کلیکرز نامی کھلونے پر بلاگ کیوں لکھ رہی ہوں؟ میں اس پر بلاگ اس لیے لکھ رہی ہوں کہ یہ کلیکرز نامی کھلونا ایک جان لیوا کھلونا ہے، جو کہ آج کل بہت ہی زیادہ عام ہے۔ ہر دوسرے بچے کے ہاتھ میں دیکھو تو کلیکرز نظر آتا ہے۔ اب یہ ایک سوال ہے کہ کلیکرز کیسے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے؟ یہ آگے آپ کو اس بلاگ میں پتہ چل جائے گا۔

پہلے چلتے ہیں کلیکرز کی تاریخ کی طرف کہ اصل میں کلیکرز ہے کیا؟ اور پہلی دفعہ کہاں یہ بنا تھا؟ تو یہ کلیکرز نامی چیز سب سے پہلے امریکہ میں بنائی گئی تھی۔ وہ کلیکرز شیشے کے بالز ہوا کرتے تھے۔ بچے ان شیشے کے بالز کو ہوا میں اچھالتے تھے یا ہاتھ میں گول گول گھماتے تھے اور اس سے ایک خاص قسم کی ٹک ٹک کی آواز نکلتی تھی جس سے بچے خوب لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ بچے اس کلکیرز نامی کھلونے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ بچوں کی جب کسی سے لڑائی ہوتی تھی تو وہ ان شیشے کے بالز یعنی کلیکرز سے ایک دوسرے کو مارتے تھے، جس سے وہ بہت ہی زیادہ زخمی ہو جاتے تھے یہاں تک کہ متاثرہ جگہ سے خون نکلنا شروع ہو جاتا تھا۔ بچے جب سکول جاتے تھے تو ان کلیکرز کو اپنے سکول بیگز میں رکھتے تھے اور جب بھی کسی سے لڑائی ہوتی تھی تو ان کلیکرز کو بطور ہتھیار استعمال کرتے تھے۔ جس سے ان کو بہت ہی زیادہ نقصان پہنچتا تھا۔

60 ،70دہائی کی بات ہے کہ جب امریکہ کی حکومت نے کلیکرز سے ہونے والی تباہی اور نقصان کو دیکھا تو ان کلیکرز کھلونے پر انہوں نے پابندی لگا دی۔ ساری دکانوں سے کلیکرز کو ہٹا دیا گیا۔ نہ صرف دکانوں سے بلکہ اسکولز میں ایک مہم چلائی گئی جس میں پولیس ایک ایک بچے کا بیگ چیک کرتی تھی اور اس سے کلیکرز ضبط کر لیتے تھے۔ ادھر تو یہ چیز کافی حد تک ختم ہو گئی لیکن ہمارے ملک پاکستان میں کلیکرز کھلونے اور ٹک ٹک کی آواز ٹاپ پر ہے۔ ہر دوسری گلی میں ہر دوسرے بچے کو دیکھے تو اس کے پاس کلیکرز ہوتے ہیں اور وہ ان سے کھیلتے رہتے ہیں۔

آج کل کے کلیکرز شیشے کے بنائے ہوئے نہیں ہیں بلکہ پلاسٹک اور لکڑی کے بنائے ہوئے کلیکرز ہے لیکن یہ بھی اتنے ہی خطرناک ہے جتنے کے شیشے والے۔  جب بچوں کی آپس میں لڑائی کسی بات پر شروع ہو جاتی ہے تو یہ پہلے پہل ان کلیکرز سے ایک دوسرے کو مارتے ہیں اور ان کلیکرز کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

ایک ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ کلیکرز کھلونا اور یہ کھیل ایڈکٹو ہے جو بھی اسے کھیلتا ہے تو وہ اس کا عادی ہو جاتا ہے۔ وہ پھر بار بار اس چیز سے کھیلنا چاہتا ہے جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ بہت سارے بچے اس سے بری طرح سے زخمی ہوئے ہیں۔ بہت سارے بچوں کی آنکھیں ان بالز کے لگنے سے ضائع ہو چکی ہے۔

ادھر میں آپ کو ایک اور بات بھی بتاتی چلوں کہ ان کلیکرز کے ڈھیر سارے مختلف نام بھی ہیں جیسے کہ کلینکرز، کلیک کلکس، نوکرز، بینکرز، بون کریکرز وغیرہ۔ یہ مختلف نام کلیکرز کے ہیں۔ بون کلیکر کا نام امریکہ میں استعمال ہوتا تھا کیونکہ یہ ہڈی بھی توڑ سکتا ہے اس وجہ سے اسے بون کلیکر کا نام بھی دیا گیا تھا۔

نہ صرف بچے ان کلیکرز کے دیوانے ہیں بلکہ بڑے بھی اس سے بڑے شوق سے کھیلتے ہیں۔ کیونکہ کلیکرز کی یہ ٹک ٹک کی آواز بہت زیادہ دلچسپ ہوتی ہے۔ جس کا ہر کوئی دیوانہ ہو جاتا ہے۔

لہذا ان سارے نقصانات کو دیکھتے ہوئے پاکستانیوں کو بھی کلیکرز کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ ان کلیکرز کے خلاف مہم چلانی چاہیے تاکہ ملک سے اس جان لیوا کھیل کا خاتمہ جڑ سے ہو سکے اور اس سے مزید نقصان نہ ہو۔

Show More

Raynaz

رعناز ایک ڈیجیٹل رپورٹر اور بلاگر ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button