چارسدہ کی فضیلت کیسے بنی بے سہارا لوگوں کا سہارا
شاہد علی ترین
ہر انسان زندگی میں مختلف مشکلات سے گزرتا ہے جوکہ اس انسان کے لئے کسی بھی امتحان سے کم نہیں ہوتا لیکن بعض افراد اس کٹھن اور مشکل وقت کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور کامیابیوں سے ہم کنار ہوتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس کٹھن اور مشکل وقت میں ہمت ہار جاتے ہیں اور دوسروں کے سہارے پر زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔ اگر انسان ہمت کرے اور اپنا عزم قائم رکھے تو کامیابیاں انکے قدم چومتی ہے ایسی ہی ایک کہانی ہے چارسدہ سے تعلق رکھنے والی معذور لڑکی فضیلت کی جو کہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور ایک دیہاڑی دار مزدور کی بیٹی ہے۔
فضیلت کہتی ہے کہ ” میں نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے قریبی سرکاری سکول سے حاصل کی اسکے بعد ہائی اسکول ہمارے گاؤں سے تقریباً 3 کلو میٹر دور تھا جس کیلئے پیدل جانا بھی دشوار رہتا اور میرے ابو کے پاس اتنی آمدن نہیں ہوتی تھی کہ مجھے رکشہ کے لئے کرایہ دیں تاہم میں نے ہمت نہیں ہاری اور سکول کے بچوں کو ٹیوشن دینا شروع کی جس سے میرا سکول کا کرایہ بچ جاتا اور اسی طرح میں نے بیچلرز کی ڈگری بھی مکمل کرلی۔ یہ سفر اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ علاقے کے لوگ اور خاندان والے طرح طرح کی باتیں کرنے لگ جاتے کہ یہ معذور لڑکی تعلیم حاصل کر کے کیا کرلے گی”
سال 2023 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں کل 74 لاکھ 48 ہزار 574 افراد معذوری کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں جن میں 40 لاکھ 88 ہزار 899 مرد جبکہ 33 لاکھ 59 ہزار 675 خواتین شامل ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں 12 لاکھ 85 ہزار 283 ایسے افراد ہیں جو کہ معذوری کے ساتھ اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔ جن میں 7 لاکھ 866 مرد جبکہ 5 لاکھ 84 ہزار 387 خواتین شامل ہیں۔
معاشرے میں خواتین باہم معذوری سے متعلق جو رویے پائےجاتے ہیں اس پرایک غیر سرکاری تنظیم اسپیشل ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام کی پروجیکٹ ڈائریکٹر آبیہ اکرم کہتی ہے کہ”پاکستانی معاشرے میں پدر شاہی نظام کے باعث خواتین باہم معذوری کو معاشرے کا کارآمد شہری نہیں مانا جاتا اور ان کو تعلیم حاصل کرنے سمیت زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی مواقع نہیں دیے جاتے جس کے باعث انکو معاشرے میں منفی سوچ اور رویے کا سامنا ہوتا ہے جوکہ انکی نفسیات پر برے اثرات مرتب کرتی ہے“۔
فضیلت معاشرے کے منفی رویوں کے متعلق کہتی ہے کہ "ان باتوں سے میرے حوصلے مزید بلند ہوگئے اور میں مزید محنت کرنے لگی اور پچھلے تین سالوں سے میں ایک غیر سرکاری تنظیم میں بطور لوکل کوآرڈینیٹر کام کرتی ہوں اور نا صرف اپنی فیملی کو مالی معاونت فراہم کرتی ہوں بلکہ علاقے کے غریب خواتین اور بیواؤں کو بلا سود قرضے دیتی ہوں۔انہی قرضوں کی بدولت میرے علاقے کی تقریباً 30 سے 35 خواتین نے باعزت روزگار شروع کیا جن سے انکے گھر کا چولہہ بھی جلتا ہے اور انکے بچوں کی کفالت بھی ہوتی ہے”۔
وہ لوگ جو فضیلت کی تعلیم حاصل کرنے کو غیر ضروری سمجھتے تھے آج وہی لوگ اسکو سفارش کرتے ہیں اور کہتے ہیں” کہ ہمارے رشتہ داروں اور اقرباء کو قرض دو۔ لوگوں کے یہ الفاظ سن کر مجھے انتہائی خوشی ہوتی ہے کہ وقت نے میرے محنت ، کوشش ، جہدوجہد اور تعلیم سے لگاؤ کو صحیح ثابت کردیا اور آج میں دوسروں کا سہارا بن رہی ہو جسکو خود کبھی کسی کے سہارے کی ضرورت ہوا کرتی تھی”۔
فضیلت نے جن خواتین کو کاروبار شروع کرنے کیلئے قرضہ دیا اس میں ایک خاتون کہتی ہے کہ "میں نے ان پیسوں سے سلائی کڑھائی کی مشین خریدی اور علاقے کی خواتین سے معاوضہ لیکر انکے لئے سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہوں جس سے میں اپنے بچوں کی کفالت کرتی ہوں”۔
فضیلت ان تمام معذور افراد کیلئے ایک روشن مثال ہے جو کسی بازار میں بیٹھ کر بھیک مانگتے ہیں اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ فضیلت نے نا صرف معاشرے کی پدر شاہی نظام کو شکست دی بلکہ ان منفی رویوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا جو کسی بھی انسان کے حوصلے پست کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ فضیلت کہتی ہے کہ میں خود تکلیف سے گزری ہو اسی لیے مجھے دیگر خواتین کی مجبوریوں اور تکالیف کا اندازہ ہے۔