قربانی، عید، مہنگائی اور غریب عوام
رانی عندلیب
اب وہ دور نہیں رہا،جب گھر میں صرف خواتین کام کرتی تھی اور بازار سے سودا سلف مرد حضرات لاتے تھے،جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ ہر چیز میں تبدیلی آئی ہے۔ اب خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ چاہے وہ گھر کے کام ہو یا باہر کے، خواتین اس کو بخوشی سر انجام دیتی ہیں۔ اور اب اس کو پختون معاشرے میں معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔
اگر میں اپنی بات کروں تو کچھ دنوں سے دونوں بھائی اتنے مصروف تھے کہ جس کی وجہ سے گھر کے کام ادھورے رہ جاتے، کچھ مصروفیات بکرا عید کی وجہ سے بھی ذیادہ ہو گئی ہیں۔ اس لئے میں مارکیٹ گئی، چونکہ پیر کا دن تھا۔پھر اگلے دو دن گوشت کا ناغہ ہوتا ہیں قصاب کی دکان سے گوشت لینے لگی۔ تو معلوم ہوا کہ دکانداروں نے اپنے ہی نرخ نامے لگائے تھےکوئی ایک کلو گوشت 1000 روپے کا تو کوئی 1200 روپے کا گوشت بیچ رہا تھا.
جب میں نے دکاندار سے سرکاری نرخ نامے کا پوچھا تو انہوں نے میری بات ٹال مٹول کر دی اور کہا کہ بکرا عید ہے، کیوں بہن تمہیں منڈی کے بھاؤ کا پتہ نہیں ؟مویشی اتنے مہنگے ہو گئے ہیں تو ہمیں کچھ نہیں بچتا۔ قصائیوں کا بھی اس میں قصور نہیں کیونکہ ان کو بھی سرکاری نرخ نامے پر مویشی نہیں ملتے۔ بس پھر کیا تھا، میں نے تو گوشت خرید لیا لیکن مجھے ان غریب لوگوں کی فکر تھی جو اتنی مہنگائی میں 900 روپے میں گوشت خریدنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ اب وہ 1000 یا 1200 روپے میں اپنی من پسند خوراک کیسے خرید سکتے ہے۔ کیونکہ آئے دن پاکستان میں بڑھتی مہنگائی گوشت اور مرغی کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بن ریی ہیں۔
گھر پہنچی تو دل میں یہی سوچ رہی تھی کہ آجکل لوگوں کے لائف سٹائل میں جوتبدیلی آئی ہیں اور دنیا نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ آج کی خواتین خود مختار ہو گئی ہیں۔ جدید دور میں جہاں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہوئی نظر آرہی ہے لیکن پھر بھی مہنگائی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ایک گھر کا خرچا پورا ہو سکتا ہیں۔ کیونکہ مہنگائی کے اس طوفان میں لوگ اپنی بنیادی ضروریات پورا نہیں کر سکتے تو وہ اپنی خواہشات کس طریقے سے پورا کر سکیں گے
عید الا الضحیٰ جیسا بڑا تہوار چند دن بعد ہے یہ غریب عوام کے لیے خوشی نہیں بلکہ احساس کمتری کا پیغام لاتا محسوس ہو رہا ہے۔ کیونکہ وہ قربانی تو نہیں کرسکتے بلکہ ان کے بچے اس دن احساس کمتری میں مبتلا ہوتے نظر آتے ہیں۔
اس لیے ہمیں چاہیےکہ ان غریب نادار لوگوں کا قربانی کے گوشت میں جو حصہ ہوتا ہے وہ ان کو پورا پورا مل جائے کیونکہ جو لوگ ایک کلو گوشت نہیں خرید سکتے وہ عید کے لیے مویشی کیا خریدیں گے۔حکومت کو یہ چاہیے کہ عید الاضحی کے دنوں میں خاص طور پر مویشی منڈی قصاب خانہ یا قصائیوں کی دکانوں پر ضرور چیک اینڈ بیلنس رکھے اور جو سرکاری نرخنامہ ہے اس کو روزانہ چیک کریں تاکہ متوسط طبقے کے لوگ بنیادی ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے۔