”بچے کی موت کا غم اس وقت کئی گنا بڑھ گیا جب اسکی میت کو باجوڑ سے نوشہرہ لانا پڑا”
عبدالقیوم آفریدی
جمیل مسیح کافی پریشان اور غمگین تھا، اس کی آواز میں دکھ اور اداسی کے آثار نمایاں تھے۔ جب وہ مجھ سے بات کررہا تھا تو اس کی آواز کبھی رک جاتی اور کبھی بھر آتی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کافی مشکل کے ساتھ اپنی دستان سنا رہا تھا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ دو مہینے قبل جمیل مسیح کے نومولود بچے کا انتقال ہوگیا۔ اس نے اپنی دستان سناتے ہوئے بتایا کہ ”بچے کی موت کا غم اس وقت کئی گنا بڑھ گیا جب بچے کو تدفین کے لئے باجوڑ سے کئی میل دور نوشہرہ میں مسیحی قبرستان لے جانا پڑا۔ ادھر اہلیہ ہسپتال میں زیر علاج تھی، پیسوں کی بھی تنگی تھی جبکہ اہلیہ کا خیال رکھنے کے لئے بھی کوئی قریبی رشتہ دار نہیں تھا۔ ایک عجیب سی کشمش اور کٹھن مرحلہ تھا“ ۔ اس نے مزید بتایاکہ ” میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اہلیہ کو کس کے سہارے چھوڑوں اور پیسوں کا انتظام کہاں سے کروں ؟“ ۔ خیر پیسوں کا بندوبست ہوگیا اور اہلیہ کو اللہ کے سہارے ہسپتال میں چھوڑ کر بچے کو دفنانے کی غرض سے ایک فلائنگ کوچ کرائے پر حاصل کی۔
کمیونٹی کے کچھ ساتھیوں کو ساتھ لے کر تقریب ڈیڑھ سو کلومیٹر فاصلہ طے کرکے جب نوشہرہ پہنچا تو وہاں پر موجود کچھ رشتہ داروں نے قبر تیار کر رکھی تھی اور یوں بچے کی تدفین کردی گئی لیکن بچے کی تدفین کے وقت بھی اہلیہ کی فکر کھائے جا رہی تھی کہ وہ ہسپتال میں کیسے ہوگی؟ تدفین کرتے کرتے تاریکی چھا گئی تو مجبوراً رات نوشہرہ میں گزارنی پڑی۔ اس سے مزید اخراجات بڑھ گئے اور قریباً ایک لاکھ روپے سے زائد اخراجات آئے۔ جمیل مسیح نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ باجوڑ میں رہائش پذیر تمام مسیحیوں کو درپیش ہے اور جب بھی کمیونٹی میں کوئی فوتگی ہوتی ہے تو انہیں یہاں قبرستان نہ ہونے کے باعث میت سینکڑوں میل دور دوسرے ضلع میں تدفین کے لئے لے جانی پڑتی ہے۔ باجوڑ جو سابقہ فاٹا کہ علاقہ ہے اب خیبرپختونخوا کی قبائلی پٹی کے انتہائی شمال میں صوبائی دارلحکومت پشاور سے ڈیڑھ سو کلو میٹر شمال کی جانب واقع ہے۔
باجوڑ میں مسیحی کمیونٹی کے 60 سالہ رہنماء پرویز مسیح نے بتایا کہ ہم نے صرف دو کنال زمین کا مطالبہ کیا تھا لیکن سیاسی جماعتوں اور ضلعی انتظامیہ کے وعدوں کے باوجود ابھی تک کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔ میت دفنانے کا مسئلہ صرف باجوڑ نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کے دیگر 7 قبائلی اضلاع میں رہنے والی مسیحی برادری کا بھی ہے جن میں مہمند ،خیبر، اورکزئی ،کرم ، جنوبی اور شمالی وزیرستان کے قبائلی اضلاع شامل ہیں۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق خیبرپختونخوا کی پچاس لاکھ آبادی میں سے قبائلی اضلاع میں 31 سو مسیحی آبادی ہے۔ ضلع خیبر میں کرسچن کمیونٹی کے ارشد مسیح نے بتایا کہ ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل میں مسیحی قبرستان میں زمین کم پڑ گئی جبکہ جمرود تحصیل میں انگریز دور میں قبرستان کے لئے جگہ مختص کی گئی جس میں کئی مسیحیوں کی تدفین بھی کی گئی ہے لیکن مقامی افراد نے قبرستان کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور جب فوتگی ہوتی ہے تو ہم میت کئی میل دور پشاور یا نوشہرہ کے مسیحی قبرستان میں دفنانے پر مجبور ہیں۔
پشاور کے مغرب میں واقع قبائلی ضلع خیبرکی تحصیل جمرود کے رہائشی مائیکل کے بقول انگریز سرکار نے 1909ء میں سولہ ایکڑ زمین مسیحی قبرستان کے طور پر مختص کی تھی لیکن یہاں ڈیڑھ سو کے قریب قبریں ہیں کیونکہ باقی زمین پر مقامی لوگوں کی تعمیرات ہیں جبکہ کچھ زمین پر بائی پاس تعمیر کیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ زمین کی ملکیت واگزار کرانے کے لئے ڈسٹرکٹ سیشن جج کی عدالت میں کیس دائر کیا جا چکا ہے۔
قبائلی ضلع مہمند میں 70 کے قرییب مسیحی خاندان رہائش پذیر ہیں اور علاقے میں مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں میت 200 کلو میٹر دور پشاور کے گورا قبرستان یا وزیر باغ میں تدفین کےلئے لے جانا پڑتی ہے۔ میت پشاور لے جانے پر ایک لاکھ روپے تک تو صرف گاڑیوں کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ ضلع مہمند میں مسیحی برادری کے مقامی رہنماء ملک شہریار مسیحی نے بتایا کہ دو سال پہلے ضلعی حکام نے غلنئی ہیڈکوارٹر کے قریب پہاڑ کے دامن میں آٹھ کنال زمین مسیحی برادری کے قبرستان کے لئے مختص کی تھی اور اس کی باقاعدہ دستاویزات بھی فراہم کی گئی تھیں لیکن چاردیواری نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی میتوں کو وہاں دفنانا نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ سے کئی بار مطالبہ کیا لیکن تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور مجبوراً وہ میت پشاور کے مسیحی قبرستان لے جاتے ہیں۔
پشاور کے انتہائی جنوب میں واقع جنوبی وزیرستان کے علاقہ وانا میں بھی مسیحی برادری تقسیم ہند سے پہلے یہاں پر آباد ہے جو بیشتر سرکاری اداروں میں سنیٹری ورکرز کے طور کام کرتے ہیں۔ جنوبی وزیرستان کے آکاش مسیح جو ایک مقامی سیاسی رہنما ہیں نے کہا کہ وانا میں بائی پاس روڈ اور ایئرپورٹ کے قریب درمیان میں مسیحی قبرستان موجود ہیں جہاں پہلے سے چار سو کے قریب قبریں ہیں لیکن کچھ عرصہ پہلے جب دیوار تعمیر کی گئی تو بھاری مشینری کے استعمال سے قبروں کو نقصان پہنچا۔ ہم نے ملبہ ہٹانے کے لئے حکومت کو شکایت کی تو صرف ملبہ ہٹایا گیا لیکن تاحال حفاظتی دیوار مکمل ہوسکی نہ دیگر سہولیات فراہم کی گئیں جن کی وجہ سے انہیں وہاں پر میت دفنانے میں مشکلات ہیں۔
قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے دیال سنگھ کو چند مہینے پہلے پشاور میں نامعلوم افراد نے ان کی دکان میں فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔ ان کے بھائی سوچان سنگھ نے بتایا دیال سنگھ کی آخری رسومات ادا کرنے میں بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ضلع خیبر سمیت پشاور میں کہیں پر بھی شمشان گھاٹ نہیں اس لئے بھائی کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لئے انہیں اپنے بھائی کی میت اٹک لے جانا پڑی جس پر80 ہزار سے زائد روپے خرچ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بھائی کے مالی حالات خراب تھے تاہم سکھ برادری نے فنڈز اکٹھا کرکے ان کے بھائی کی آخری رسومات ادا کیں۔ پشاور میں مقیم سکھ کمیونٹی کے 35 سالہ گرپال سنگھ جو ایک سیاسی اور سماجی کارکن ہیں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں سکھ برادری کی بڑی تعداد ضم قبائلی اضلاع میں مقیم تھی، گرپال سنگھ نے دعویٰ کیا کہ قبائلی اضلاع میں 15ہزار سے زائد سکھ کمیونٹی ایک صدی سے رہائش پذیر تھی جن میں سب سے زیادہ قبائلی ضلع خیبر ،کرم اور اورکزئی میں تھی جہاں پر لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت شمشان گھاٹ قائم کئے تھے لیکن وہاں پر دہشتگردی کے باعث بیشتر سکھ اپنا علاقہ چھوڑ کر پشاور، حسن ابدال اور دیگر شہروں میں منتقل ہو چکے ہیں۔
2008ء میں صوبائی حکومت نے پشاور میں ان لوگوں کے لئے شمشان گھاٹ بنانے کا اعلان کیا لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ گرپال سنگھ نے کہا کہ شمشان گھاٹ بنانے میں تاخیر پر انہوں نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی ہے جس پر تاحال فیصلہ نہیں آیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تقسیم برصغیر سے قبل قبائلی علاقوں کے علاوہ پشاور میں تقریباً دس شمشان گھاٹ قائم تھے لیکن اب صوبائی دارالحکومت میں ایک بھی نہیں۔ قبائلی اضلاع کی سکھ کمیونٹی تو دور کی بات ہے پشاور میں رہائش پذیر 10 ہزارسکھ کمیونٹی بھی 100 کلومیٹر دور ضلع نوشہرہ کے پنجاب سے متصل سرحدی علاقہ اٹک میں میت کو آخری رسومات ادائیگی کے لئے لے جاتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس شمشان گھاٹ کو بھی 2 سکھ خاندانوں نے اپنی مدد آپ کے دریا کنارے زمین خرید رکھی ہے جس کے اخراجات برادری سے سالانہ چندہ لے کر پورے کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جن قبائلی اضلاع میں سکھ کمیونٹی رہائش پذیر ہیں ان سمیت ہر خاندان کے لئے اپنے پیاروں کی میت دور لے جانا بہت زیادہ مشکل ہے کم از کم پشاور سے اٹک تک گاڑیوں کے کرائے کی مد میں کم از کم 80 ہزار روپے تک خرچہ آتا ہے اسی وجہ سے برادری کے بہت کم لوگ کسی شخص کی میت کی آخری رسومات میں شرکت کرتے ہیں۔
گرپال سنگھ نے بتایا کہ پشاور سے متصل قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں پانچ کلومیٹر فاصلے پر سکھ کمیونٹی نے اپنی مدد اپ کے تحت پہلے سے شمشان گھاٹ تعمیر کیا ہے لیکن سہولیات کے فقدان اور سکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے سکھ سکھ کمیونٹی یہاں اپنے پیاروں کی میت کی آخری رسومات ادا نہیں کرسکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر باڑہ کے شمشان گھاٹ میں سہولیات میسر ہوں اور علاقے میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو تو پشاور میں مقیم سکھ برادری کے لوگوں کو وہاں اپنے متوفین کی آخری رسومات ادا کرنے اور مذہبی تقریبات کے انعقاد میں آسانی میسر آ سکے گی۔
مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے لئے سرگرم کارکن ہارون سرب دیال نے کہا کہ کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی دوسری حکومت میں مذہبی اقلیتوں کی بہبود کے لئے 5 ارب 20 کروڑ روپے رکھے گئے جن میں سے ایک ارب 1کروڑ شمشان گھاٹ اور مسیحی قبرستانوں کے لئے مختص کئے گئے۔ لیکن شمشان گھاٹوں کی تعمیر کے لئے بنائی جانے والی کمیٹی میں لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر شامل کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جن جگہوں کی نشاندہی کی گئی وہ شمشان گھاٹ کے لئے موزوں نہیں تھیں اس لئے اقلیتی عقیدے کے مطابق شمشان گھاٹ آبادی سے دور اور دریا کنارے ہونا چاہئے۔ اور جب اس کے لئے کوئی جگہ مقرر کر دی جائے تو اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
ہارون سرب دیال نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں اس وقت 9 شمشان گھاٹ ہیں جن میں صرف ایک ہی شمشان گھاٹ مذہبی اصولوں کے مطابق ہے جبکہ دیگر میں ضروری سہولیات کا فقدان ہے۔
خیبرپختونخوا کے ضم قبائلی اضلاع کی واحد اقلیتی نشست پر منتخب ہونے والے سابق رکن صوبائی اسمبلی ولسن وزیر نے کیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی دوسری بار حکومت میں ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ کے شمشان گھاٹ میں سہولیات کی عدم موجودگی کے بارے میں کہا کہ اس وقت ضلعی انتظامیہ بروقت پی سی ون تیار نہ کرسکی اور سالانہ ترقیاتی فنڈ منسوح کردیا گیا۔
قبائلی ضلع کرم سے نقل مکانی کرکے حسن ابدال میں مقیم ہندو برادری کے رہنماء حکم داس نے کہا کہ ضلع کرم میں ان کی برادری کے 650 خاندان 2006ء میں شیعہ سنی فسادات کے خطرے کے پیش علاقہ چھوڑ کر کوہاٹ، پشاور اور حسن ابدال منتقل ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ آبائی علاقوں میں ان کی چھوڑی ہوئی زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے، ان میں کرم کے علاقے عمل کوٹ میں ہندو برداری کا قبرستان بھی شامل ہے جہاں پر وہ بچوں کی تدفین کرتے تھے۔ انہوں نے انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں کو مقامی لوگوں کی جانب سے قبضے کی کوششوں کے بارے میں اطلاع دی ہے لیکن اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سابق رکن صوبائی اسمبلی ولسن وزیر خیبر پختونخوا میں ضم قبائلی اضلاع کی واحد اقلیتی نشست پر جولائی 2019ءمیں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں ان اضلاع کی اقلیتی برادری کے مسائل جاننے کے لئے انہوں نے باجوڑ سے وزیرستان تک متعدد دورے کئے اور مسائل حل کرنے کی کوششیں کیں لیکن مسیحی کمیونٹی مسلسل بنیادی سہولیات سے محرومی کی شکایت کرتی ہے۔ ان اضلاع میں غیر مسلم اقلیتوں کی آبادی نہایت کم ہے جس کے باعث ان کے کئی مسائل بہت خاص اور یکتا ہیں جن میں سے ایک مرنے والوں کی تدفین کا ہے جو ہر کمیونٹی کے لئے انتہائی حساس معاملہ ہوتا ہے۔
قبائلی ضلع شمالی وزیرستان جو صوبائی دارالحکومت پشاور کے جنوب شمال میں واقع ہے کے میران شاہ بازار کی پاکستان مارکیٹ کے قریب ”گورا قبرستان“ مسیحیوں کے لئے مخصوص تھا۔ لیکن علاقے میں بدامنی کی وجہ سے 1999ء کے بعد یہاں تدفین کا سلسلہ بند ہو گیا تو حکومت نے کنٹونمنٹ کے اندر چار کنال زمین قبرستان کے طور پر مختص کر دی۔ شمالی وزیرستان کے خالد مسیح جو مقامی سماجی کارکن بھی ہیں نے بتایا کہ شمالی وزیرستان میں دو سو سے زائد خاندان رہائش پذیر ہیں۔ پرانا گورا قبرستان کارقبہ بڑا تھا لیکن مقامی لوگوں نے 2017ء میں اس پر قبضہ کر کے مارکیٹیں تعمیر کر لی ہیں جہاں پر پہلے سے 80کے قریب مسیحیوں اور ہندووں کی قبریں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ایک انچ زمین بھی نہیں بچی۔ انہوں نے بتایا کہ ضلعی حکام کو اس حوالے سے کئی درخواستیں دی گئی ہیں کہ ان کے پیاروں کی قبروں کا تقدس پامال ہو رہا ہے اور انہیں نہ صرف تحفظ دیا جائے بلکہ ہمیں قبرستان کی قبضہ شدہ زمین کے بدلے دوسرے کسی مقام پر جگہ دی جائے کیونکہ انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے لیکن ابھی تک ان کا مطالبہ پورا نہ ہوسکا۔
محکمہ اوقاف و مذہبی امور خیبر پختونخوا کی ڈپٹی سیکرٹری رضوانہ ڈار خان نے قبائلی اضلاع میں مسیحی قبرستان اور شمشان گھاٹ کے مسئلے کے حوالے سے بتایا کہ مئی 2018ء میں جب سابق فاٹا کا انضمام خیبرپختونخوا میں ہوا تو اس کے بعد سے قبائلی علاقوں کی اقلیتی برادری کے امور کی ذمہ داری صوبائی محکمہ اوقاف اور مذہبی امور کے حوالے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک ان کے پاس ان اضلاع سے ایسی ایک بھی درخواست موصول نہیں ہوئی جس میں قبرستان یا شمشان گھاٹ کے مسئلے کا ذکر ہو جبکہ دیگر منصوبوں جیسے سکالرشپ، ہنر، کاروبار کے لئے قرضے وغیرہ کے حصول کے لئے ان اضلاع کے نوجوان رجوع کرتے ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اگر ضم اضلاع کی اقلیتی برداری اپنا کوئی بھی مسئلہ لے کر ان کے دفتر آتی ہے تو وہ اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کریں گی۔
خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر برائے مذہبی امور عدنان قادری کے پی آر او نے ریاض غفور نے کہا کہ صوبائی حکومت نے جس طرح خیبر پختونخوا کے بندوبستی اضلاع میں مذہبی اقلیت کے لئے اقدامات کئے ہیں اسی طرح خیبر پختونخوا کے ضم قبائلی اضلاع میں مقیم مذہبی اقلیت کے لئے بھی ہر شعبے میں کام کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ فاٹا پہلے وفاق کے زیر انتظام تھا اب خیبر پختونخوا کا حصہ ہے اور مسیحی قبرستان اور شمشان گھاٹ کے مسائل سے حکومت باخبر ہیں اور حوالے اعدادوشمار اکھٹا کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی وزیر برائے مذہبی امور نے حال ہی میں اپنا منصب سنبھالا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے تمام مذہبی اقلیت اس ملک کا حصہ ہے اور اسکی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں اسلئے کوشش ہوگی کہ نہ صرف میت دفنانے کے مسائل بلکہ رہائش،تعلیم ،سکالرشپس سمیت دیگر مشکلات کے حل کے لئے بھی ایک جامع پروگرام تیار کریں۔