آفت زدہ قرا ردینے کے باوجود باجوڑ کے متاثرین تاحال معاوضوں سے محروم
شاہ خالد شاہ جی
قبائلی ضلع باجوڑ کی تحصیل سلارزئی کے علاقہ بارو کے 40 سالہ عبداللہ اپنے دو چھوٹے بیٹوں اور بھتیجے کے ساتھ 70 کنال زرعی زمین پر موجود ہے جو انہوں نے سالانہ اجارہ پر لیا ہے۔ پچھلے سال اس زرعی زمین پر انہوں نے ورٹیکل ٹماٹر،شملہ مرچ، بینگن، ٹینڈا،کھیرا اور دھنیا کی سبزیاں کاشت کی تھی تاہم پیداوار کے حصول کی بجائے ان کی پوری سبزیوں کے کھیت شدید ژالہ سے تباہ ہوگئے تھے۔ ژالہ باری کی اس آفت نے علاقے کے پورے زرعی شعبے کو بری طرح متاثر کردیا تھا جس کی وجہ سے حکومت نے باجوڑ کو آفت زدہ قرار دیا تھا۔ حکومت نے تمام متاثرہ زمینداروں کے نقصانات کا سروے کیا تھا لیکن عبداللہ سمیت تمام متاثرین تاحال معاوضوں سے محروم ہے۔
عبداللہ نے بتایا کہ پچھلے سال سیزن کی سبزیوں کی کاشت پر ان کے تیس لاکھ روپے خرچہ ہوئے تھے جو اس نے سبزی منڈی کے مختلف دوکانداروں سے سے ادھار لیے تھے۔ یہ قرض انہوں نے سیزن کے اختتام پر واپس کرنا تھا لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔ انہوں نے کہا کہ سبزیوں کے ان کھیتوں میں خاندان کے اٹھ افراد صبح سے لیکر شام تک مسلسل کام کرتے اور انکی خواتین گھر میں انکے لئے روٹی تیار کرنے کے ساتھ دیگر گھریلوں امور میں مدد کرتی۔ انکے معاش کا دارومدار ان سبزیوں پر تھا جو ژالہ باری نے ان سے چھین لیا۔
ضلع باجوڑ میں پچھلے سال مئی، جولائی، اگست اور ستمبر کے مہینوں میں تباہ کن ژالہ باری سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں محکمہ زراعت توسیع باجوڑ تحصیل خار کے زراعت آفیسر ڈاکٹر سبحان الدین نے ٹی این این کو بتایا کہ باجوڑ کے پانچ تحصیلوں ماموند، سلارزئی، اتمانخیل،برنگ اور خار میں پچھلے سال کی ژالہ باری نے زرعی شعبے کو بڑا نقصان پہچایا تھا۔ اُن کے بقول گندم کے فصل کو 70 فیصد ، سبزیوں کو 90 فیصد اورپھلوں کے باغات کو 60 فیصد نقصان پہنچا تھا جوکہ باجوڑ کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ پچھلے سال ژالہ باری سے زرعی شعبے کو پہنچنے والے نقصانات ابھی تک پورے نہیں ہوئے جو ایک تشویشناک بات ہے۔
محکمہ زراعت توسیع باجوڑ کے فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق باجوڑ میں کل رپورٹڈ شدہ زرعی زمین ایک لاکھ انتیس ہزار چھتیس ہیکٹیرز ہے جن میں ستتر ہزار باساٹھ ہیکٹیرز قابل کاشت جبکہ با قی بنجر ہے۔ اس قابل کاشت رقبے میں سے چونتیس ہزار پانچ سو تائیس ہیکٹیرز رقبے پر گندم کاشت ہوتی ہے جس کی پیداوار پچیس ہزار چار سو دس ٹن ہے۔سبزیوں کے کھیت ایک ہزار پانچ سو انہتر ہیکٹیرز رقبے پر کاشت ہوتے ہے اور اس کی پیداوار تیرہ ہزار اٹھانوے ٹن ہیں۔ پھلوں کے باغات سات سو ستاساٹھ ہیکٹیرز رقبے پر ہے اور اس کی سالانہ پیداوار پانچ ہزار آٹھ سو پینساٹھ ٹن ہے۔ جبکہ صرف ٹماٹر ساٹھ ہیکٹیرز رقبے پر کاشت ہوتی ہے اور اس کی پیداوار چار سو باسٹھ ٹن ہے تاہم اس پیداوار میں ہر سال بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
ملک فضل ودود سلارزئی آف بارو اپنے چار سو پچاس کنال زرعی زمین پر گندم اور مکئی کاشت کرتے ہیں جس سے صرف گندم کے سیزن میں سات سو من پیداوار ہوتی ہے لیکن پچھلے سال گندم کی پوری فصل شدید ژالہ باری کی نذر ہوگئی تھی اور وہ صرف چالیس من گندم کی پیداوار حاصل کرچکا تھا جوکہ ماضی کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ فضل نے کہا کہ انہوں نے اپنے گھر کی ضرورت پوری کرنے کے لئے اسی من گندم مارکیٹ سے خریدی ہے جو اس کی زندگی میں پہلی بار ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے گھر کی ضرورت کے لئے مارکیٹ سے گندم خریدی۔ اُنہوں کہا کہ انکے پچاس لاکھوں روپے کے لگ بھگ نقصانات ہوئے ہیں جس کا سروے محکمہ زراعت اور ضلعی حکام نے مشترکہ طور پر کیا ہے لیکن ان کوتاحال کسی قسم کی امداد نہیں ملی۔ وہ بار بار محکمہ زراعت کے اہلکاروں سے اس بارے میں رابطہ کرتے ہیں لیکن ابھی تک ان کو نقصانات کے معاوضے نہیں ملے۔ انہوں نے کہا کہ وہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کو جلد از جلد معاوضے ادا کریں تاکہ ان کی مشکلات میں کمی آسکیں۔
کاشتکاروں کے فلاح بہود کے لے قائم فارم سروسز سنٹر تحصیل سلارزئی کے سابق صدر و محکمہ زراعت باجوڑ کے ایگری کلچر انسپکٹر نواز خان نقصانات کے اعدادو شمار اکٹھے کرنے والے سروے ٹیم میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ سروے ٹیم میں ان کے علاوہ کاشتکاروں کے تنظیم کا نمائندہ اور ضلعی انتظامیہ کے طرف سے تحصیلدار شامل تھے ۔ان کے مطابق تحصیل سلارزئی ژالہ باری سے بری طرح متاثر ہوا تھا اور کروڑوں روپوں کے نقصانات ہوئے تھے۔
نواز نے مزید کہا کہ وہ فیلڈ میں جب وزٹ کرتے ہیں تو زمیندار ان سے ہمیشہ معاوضوں کی ادائیگی کے حوالے سے پوچھتے ہیں۔ وہ ان کو یہی ایک جواب دیتے ہیں کہ جلد ملے گے لیکن ابھی تک اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس کی وجہ سے زمینداروں کا ان پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔
باجوڑ میں ژالہ باری سے متاثر زمینداروں کی ایک لمبی فہرست ہے ان میں ایک سلیم خان بھی ہے۔ جو ضلع پشاور کے علاقے ناگمان سے تعلق رکھتے ہیں اور پچھلے چودہ سالوں سے باجوڑ کے مختلف علاقوں میں سالانہ اجارے پر زمینیں لیکر اس پر سبزیاں کاشت کر تے ہیں۔ ان کے مطابق باجوڑ میں ورٹیکل ٹماٹر کی قسم اس نے پہلی بار متعارف کرائی تھی اور اس کے بعد پورے ضلع میں اس کی کاشت شروع ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال انہوں نے سو کنال کے لگ بھگ رقبے پر مختلف سبزیاں کاشت کی تھی جس پر اٹھایس لاکھ روپے ان کا خرچہ ہوا تھا۔ لیکن جب پیداوار شروع ہوا تو ژالہ باری کی آفت نے سب کچھ تباہ کر دیا جس سے وہ مالی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ اگر انکے کھیت تباہ نہ ہوتے تو اس سے نوے لاکھ روپے آمدن حاصل کر لیتے۔
سلیم کہتے ہے کہ پچھلے تین سالوں سے موسمی حالات میں بہت تبدیلی آئی ہے اور ہر سال اسی موسم میں ژالہ باری ہوتی ہے جس سے فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچتا ہے لیکن پچھلے سال جو ژالہ باری ہوئی تھی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ”ایک طرف ان پر اجارہ کے پیسے اور قرضہ چڑھا ہے تو دوسری طرف ان کے دو بچوں کو چمڑے ( سکن) کی بیماری لاحق ہے جن کے علاج پر ماہانہ چھ ہزار روپے خرچہ آتا ہے جس کو پورا کرنا ان کی بس کی بات نہیں ہے اور وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت نے دس ہزار روپے فی ایکڑ دینے کا اعلان کیا تھا جو انتہائی کم ہے لیکن وہ بھی نہیں دیا۔ اس لئے وہ حکومت سے ہمدردانہ اپیل کرتے ہیں کہ انکے نقصانات کے معاوضے انہیں ادا کریں اور انکے ساتھ بھر پور مالی تعاون کریں تاکہ وہ ایک دفغہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائے اور زراعت کے شعبے کی ترقی میں اپنی خدمات سر انجام دے سکیں”۔
ڈاکٹر سبحان الدین نے زمینداروں کو معاوضوں کی ادائیگی میں تاخیر کے سوال پر بتایا کہ انہوں نے بار بار ضلعی انتظامیہ سے اس حوالے سے بات کی ہے لیکن انتظامیہ کا اس حوالے سے یہ جواب تھا کہ سروے میں ایسے لوگوں کی رجسٹریشن بھی ہوئی ہے جو غیر مستحق ہے جس کی وجہ سے نقصانات کا تخمینہ اربوں روپے بنتا ہے جس کے لئے حکومت کے پاس فنڈ دستیاب نہیں ہے۔ جب تک اس کی مکمل چھان بین نہیں کی جاتی اور صحیح متاثرین کا ڈیٹا الگ نہیں کیاجاتا اس وقت تک اس کی ادائیگی کرنا ممکن نہیں۔
سبحان الدین نے یقین دلایا کہ عید کے بعد وہ ایک دفعہ پھر اپنے حکام بالا اور ضلعی انتظامیہ سے بات کرینگے اور ان کی توجہ اس مسئلہ کی طرف مبذول کرائینگے۔