کیا تمغہ امتیاز کی بس اتنی حیثیت رہ گئی ہے؟
انیلہ نایاب
بچپن سے لے کر اب تک ہم یہ دیکھتے آئے ہیں کہ ہمیں ہر اچھی کارکردگی پر انعام ضرور ملتا ہے۔ چاہے وہ کلاس میں اول پوزیشن ہو یا پھر کسی بھی ادارے میں اچھی کارکردگی ہو۔
اسی طرح ہمارے ملک پاکستان میں بھی ہر سال نمایاں کارکردگی کی بنا بہت سی اہم شخصیات کو صدارتی ایوارڈ یا تمغہ امتیاز دیا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کے منفرد ایوارڈز ہیں۔ پاکستان میں یہ اعزاز کسی بھی شہری کو اسکی کامیابیوں کی بنا پر دیا جاتا ہے۔ تمغہ امتیاز پاکستان کا چوتھا بڑا اعزاز ہے۔
اسکو تمغہ فضیلت بھی کہا جاتا ہے یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو حکومت پاکستان عسکری اور سول شخصیات کو دیتی ہیں۔
سول شخصیات کو یہ اعزاز ان کی فنون لطیفہ, ادب, کھیل, طب اور سائنس کے میدان میں نمایاں کارکردگی کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔ اس اعزاز کا اعلان سال میں صرف ایک بار کیا جاتا ہے۔
23 مارچ 2024 کو تمغہ امتیاز سے بہت سے لوگوں کو نوازا گیا۔ میری طرح اور بھی بہت سارے لوگ ہوں گے جن کو حیرانی ہوئی ہوں گی کہ اس سال تقریباً ہر خاص و عام کو اس اعزاز سے نوازا گیا جس وجہ سے ذہن میں یہ سوال بار بار جنم لیتا ہے کہ کیا یہ اعزاز اتنا عام ہے کہ کوئی بھی اسے حاصل کر سکتا ہے۔
ہمارے ملک پاکستان میں انتہائی قابل ذہین اور ایسے لوگ ہیں جو مختلف اداروں میں اپنی خدمات سر انجام دیں رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں قابل ترین سائنسدانوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔
ایسے ہونہار طب کے شعبے سے وابستہ لوگ ہیں جن کے نام ملک اور بیرونی ملک میں نمایاں ہیں۔ ایسے کئی شعبوں سے وابستہ لوگ ہیں جو مختلف اداروں میں ملک کے لیے خدمات بخوبی انجام دے رہے ہیں۔
ہر سال مختلف شعبوں سے بڑے بڑے لوگ فارغ ہوجاتے ہیں اور یہ جن لوگوں کی وجہ سے ان بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں وہ اساتذہ ہوتے ہیں۔ ایک مضبوط عمارت تب ہی بنتی ہے جب اس عمارت کی بنیاد مضبوط ہو میری نظر میں ان قابل اور ذہین اساتذہ کی حیثیت اس مضبوط بنیاد جیسی ہے جس پر بڑے اور شاندار عمارت بنتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی صدارتی ایوارڈ سے نہیں نوازا گیا۔
دراصل اس ایوارڈکی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے اصل معنوں میں اس ملک کے لئے اپنی خدمات سرانجام دی ہو لیکن اس سال 23 مارچ کو ملنے والے مختلف تمغہ امتیاز سے یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ اس میں ذاتی پسند نا پسند کو مد نظر رکھا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں ایسا ہوگا کہ پاکستان میں ہر گھر میں ایک فرد کے پاس صدارتی ایوارڈ ضرور ہوگا۔ کیا اس ایوارڈ کی اتنی حیثیت رہ گئی ہے؟ کیا اس ایوارڈ کا حاصل کرنا اتنا آسان ہو گیا؟
تمغہ امتیاز کو کس معیار سے دیا جاتا ہے یہ بات کوئی سمجھا سکتا ہے؟ چپل بنانے والے چچا کو بھی تمغہ امتیاز سے نوازا گیا ہے۔ وہ چپل بنانے والا جس نے 3 ہزار کی چپل کی قیمت 8 سے 10 ہزار کی ہے۔ کیا یہ تمغہ اس بنا پر دیا گیا ہے کہ یہ ایک سیاسی پارٹی کو سپورٹ کرتا ہے۔ ایسے ہزاروں کی تعداد میں بہترین چپل بنانے والے موجود ہیں۔
اس سال جو کچھ ہوا تو کیا یہ اس تمغے کے ساتھ انصاف ہے؟ کیا یہ سب اصل حقدار تھے؟ کیا واقعی میں انہوں نے کوئی کارنامہ سرانجام دیا تھا؟
نوٹ۔ ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔