بلاگزلائف سٹائل

نوجوانوں میں ’’ای سگریٹ‘‘ کا بڑھتا ہوا رجحان

 

 آفتاب مہمند

پاکستان میں تمباکو نوش افراد کی تعداد ہر سال بڑھتی جا رہی ہے جبکہ عالمی سطح پر اس میں کمی ہو رہی ہے۔ ایک عالمی سروے کے مطابق ہر روز چھ سے پندرہ سال تک کی عمر کے قریب بارہ سو پاکستانی بچے تمباکو نوشی شروع کر دیتے ہیں۔

پاکستان میں تقریباً 24 ملین سے زائد افراد سگریٹ نوشی کر رہے ہیں ،جس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ نوجوان نسل کی بھی اک بڑی تعداد تمباکو کا استعمال سگریٹ کی شکل میں کر رہے ہیں۔ نوجوان دیگر فیشن کے ساتھ ساتھ سگریٹ نوشی کے مشغلے کو بھی اپنا رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ بھی ایک فیشن ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال تمباکو نوشی سے تقریباً پوری دنیا میں 80 لاکھ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں جن میں اک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جن میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ لڑکے اور لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ جو اپنے تدریسی مراکز، آفس، کارخانوں میں سگریٹ نوشی کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں تمباکو کا استعمال کرنے والوں کی تعداد 2 کروڑ 39 لاکھ سے زیادہ ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے قائم کردہ ٹوبیکو کنٹرول سیل کے مطابق اس کُل تعداد میں سے تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ افراد تمباکو کا استعمال سگریٹ کے ذریعے کرتے ہیں۔ اس کے برعکس رنگ برنگی پیکنگ، سٹور میں بیٹھنے کے لیے آرام دہ کرسیاں اور اکثر و بیشتر بغیر کسی انتباہ کے فروخت ہوتے ای سگریٹ، زیادہ سے زیادہ لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کر رہے ہیں۔

ای سگریٹ کیا ہے؟

دراصل یہ ایک بیٹری سے چلنے والی ڈیوائس (آلہ) ہے جو ای – لیکویڈ یا جوس نامی محلول کو گرم کرتی ہے۔ ای لیکویڈ میں نکوٹین اور کھانوں میں پائے جانے والے عام فلیورز (ذائقے) ہوتے ہیں۔ ای سگریٹ کے ذریعے آپ دھوئیں کی بجائے بخارات کی صورت میں نکوٹین کی خوراک لے سکتے ہیں۔ ای سگریٹ کے ہی استعمال کو ویپنگ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ای سگریٹ میں موجود نکوٹین تمباکو نوشی کے دھوئیں میں شامل متعدد زہریلے کیمیکلز ٹار اور کاربن مونو آکسائیڈ کے مقابلے میں بہت کم نقصان دہ ہیں۔ ہم روزمرہ کے روایتی سگریٹ کو اسموکنگ کہتے ہیں جبکہ الیکٹرانک سگریٹ کو E-cigrette اور پینے کو ویپنگ VAPING کہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ گلی کا کونا ہو یا کوئی کیفے، وہاں موجود نوجوانوں میں سے بیشتر کے ہاتھ میں سگریٹ نظر آتی تھی، مگر اب وقت بدل رہا ہے اور ماچس یا لائٹر سے جلنے والی سگریٹ کی جگہ الیکٹرانگ ای سگریٹ نے لے لی ہے۔ ای سگریٹ کسی نئی ٹیکنالوجی سے کم نہیں کیونکہ اس کے مختلف ماڈلز دستیاب ہیں۔ پہلی بار چین میں ای سگریٹ متعارف کرائی گئی اور اگلے دو سالوں میں اسے دنیا کی بڑی مارکیٹوں میں برآمد کرنا شروع کردیا، جس کے بعد اس کا استعمال دنیا بھر میں عام ہوگیا۔

ای سگریٹ کی باآسانی دستیابی

ویپنگ کا بڑھتا ہوا رجحان زیادہ تر تو ملک کے شہری علاقوں میں پایا جاتا ہے مگر جوں جوں اس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے ان ای سگریٹس کو اب آپ گروسری سٹورز اور پان سگریٹ کی دکانوں پر بھی فروخت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
خیبر پختونخوا میں کام کرنے والی سماجی تنظیم بلیو وینز کے پروگرام منیجر قمر نسیم کے مطابق ”اب سگریٹ نوشی میں نت نئے ٹرینڈز متعارف ہو چکے ہیں۔ ویپنگ، ای سگریٹ اور ٹوبیکو پاؤچ، سبھی کچھ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اکثر شہروں کے مہنگے کاروباری اور رہائشی علاقوں میں ویپنگ شاپس نظر آتی ہیں جبکہ نکوٹین اور دیگر مضر صحت اجزا والے ٹوبیکو پاؤچ بھی عام دکانوں پر ٹوفیوں گولیوں کی طرح فروخت کیے جاتے ہیں۔‘‘
یہ تمباکو مصنوعات خاص طور سے مہنگے رہائشی علاقوں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے آس پاس چھوٹی چھوٹی دکانوں سے بھی مل جاتی ہیں۔

کم عمری میں ای سگریٹ شروع کرنے کے ممکنہ اسباب کیا ہیں؟

سماجی طور پر بہت سے پاکستانی بچوں کے کم عمری میں ہی اب ای سگریٹ شروع کر دینے کے کئی اسباب ہیں۔ کئی نفسیاتی ماہرین کے مطابق ان وجوہات میں دوستوں کا دباؤ، پریشان کن خاندانی اور معاشرتی حالات اور سماجی محرومی نمایاں ہیں۔ پھر جو عمل راہ فرار کے طور پر یا تفریح کے لیے شروع کیا جاتا ہے، وہ عمر بھر کی ایسی عادت بن جاتا ہے جس سے نجات حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ایک اور فیصلہ کن پہلو یہ بھی ہے کہ جب سگریٹ اور تمباکو کی دیگر مصنوعات ہر کسی کو ہر جگہ دستیاب ہوں، ان کی خریداری میں خریدار کا نابالغ ہونا عملی طور پر کوئی رکاوٹ ثابت نہ ہو۔

نوجوان نسل کیا ویپ کو ایک فیشن سٹیٹمنٹ کے طور پر استعمال کر رہی ہے؟

اسی حوالے سے کئی نوجوانوں کا خیال ہے کہ ’نوجوانوں کو بہت سارا دھواں پرکشش لگتا ہے اور ویپ انھیں "کوول” لگتا ہے اور اس کا ایک ششکا ہے۔ سگریٹ پینے کے بعد جو بدبو آتی ہے، وہ چلی جاتی ہے اور آپ لوگوں اور گھر والوں کے سامنے بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔‘ کئی نوجوانوں کا خیال ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ دوستوں کا دباؤ بھی ہوتا ہے۔ ‘جب طالب علم کالج داخل ہوتا ہے تو وہ سٹائل کے لیے دوستوں میں اپنے آپ کو منوانے کے لیے اس کا استعمال کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔’
بہت سے ایسے بھی نوجوان ہیں جو اس عمر میں نئی چیزوں کے ساتھ تجربہ کرنا چاہتے ہیں اور اس لیے بھی نشہ آور چیزوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ یہ مشین ایسی سہولت فراہم کرتی ہے جو سگریٹ نہیں کرتا۔ اس میں موجود فلیورز کی خوشبو اور سب سے بڑھ کر اسے کہیں بیٹھے با آسانی پی لینا ویپ یا ای سگریٹ کو پُر کشش بناتی ہے۔

کیا ای سگریٹ واقعی تمباکو نوشی سے زیادہ محفوظ ہے؟

سگریٹ چھوڑ کر ویپ پر منتقل ہونے والے بہت سے صارفین میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ وہ اب ایک ایسی چیز پر منتقل ہو گئے ہیں جس کے نقصانات سگریٹ کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ بی ایم سی پبلک ہیلتھ‘ کے محقیقین کے مطابق ای سگریٹ نیکوٹین کی دنیا میں بہت مقبول ہو رہے ہیں اور ان پر کنٹرول سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ الیکٹرانک سگریٹ اصل سگریٹ کے اثرات کی نقالی کرتے ہیں اور ایسے بخارات پیدا کرتے ہیں جو اصل سگریٹ سے کم نقصان دہ ہوتے ہیں۔ تاہم ان بخارات میں عام طور پر نیکوٹین موجود ہوتی ہے جو نشہ آور ہے۔ تمباکو کا متبادل سمجھنے کی بجائے لوگ اس کو ایک اور نشہ آور چیز ہے سمجھ کر تجربہ کر رہے ہیں۔

نکوٹین سے بہت سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور ای سگریٹ اس انتہائی نشہ آور محلول کو بہت گاڑھا کر کے پیش کرتے ہیں۔ ہمیں اس بارے میں بہت احتیاط برتنی چاہیے اور یہ بھی کہ ہم اپنے نوجوانوں کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
اسلام آباد کے شفا ہسپتال میں کام کرنے والے پلمونولوجسٹ ڈاکٹر جعفر خان کے مطابق ’بہرحال اس میں نکوٹین موجود ہے جو ایک نشہ ور جز ہے اور اس کی لت لوگوں کی صحت کو بہت نقصان پہنچا سکتی ہے۔‘
دنیا بھر میں کی جانے والی تحقیق اب تک ویپنگ کے دیرپا اثرات پر کوئی حتمی رائے نہیں دے پائی، جس کی وجہ سے بہت سے ممالک میں قائم صحت عامہ کے ادارے اسے سگریٹ چھوڑنے کے لیے ایک متبادل کے طور پر تجویز نہیں کرتے۔

کیا پاکستان میں ای سگریٹ کے مواد سے متعلق قوانین موجود ہیں؟

ویسے تو پاکستان میں تمباکو کے استعمال کے حوالے سے قوانین موجود ہیں جیساکہ تمباکو نوشی سے روکنے سے متعلق آرڈیننس لوگوں کو عوامی مقامات پر سگریٹ پینے، تعلیمی مراکز کے قریبی تمباکو یا سگریٹ فروخت اور 18 سال سے کم عمر افراد کو سگریٹ کی فروخت پر پابندی کے اقدامات شامل ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی سنہ 2018 کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ویپ استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 4 کروڑ 10 لاکھ سے زائد ہے اور ظاہر ہے ان پانچ سال میں اس تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہو گا۔
پاکستان میں ویپنگ اور ای سگریٹ سے متعلق کوئی قواعد موجود نہیں جبکہ اس کے برعکس برطانیہ میں ای سگریٹس کے مواد کے حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں۔
مثال کے طور پر برطانیہ میں تحفظ کی خاطر ای سگریٹ میں نکوٹین کی مقدار کی حد مقرر ہے اور اس بات کی خاص نگرانی کی جاتی ہے کہ ان کے اشتہار کیسے دیے جا سکتے ہیں اور ان کی فروخت کہاں اور کیسے کی جا سکتی ہے؟

دوسری جانب بھارت میں ای سگریٹس اور ویپ پر مکمل پابندی عائد ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے قانون نہ ہونے کا مطلب ہے کہ درآمد شدہ ویپنگ مشینوں کے معیار پر کوئی چیک نہیں۔
پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے حکام کے مطابق کسی بھی قسم کے ای سگریٹ ان کی ’مینڈیٹری لسٹ‘ میں شامل نہیں اور وہ اس لیے اس کے معیار کی نگرانی کرنے کے مجاز نہیں۔

سابق وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے اصلاحات سلمان صوفی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت سرکاری طور پر ای سگریٹ یا ویپنگ کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ سلمان صوفی کے مطابق صوبائی حکومتوں کے صحت کے ڈیپارٹمنٹس ویپ اور ای سگریٹس کے لوگوں پر پڑنے والے اثرات کا ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہے اور اسے جمع کرنے کے بعد ہی وہ یہ فیصلہ کر پائیں گے کہ اس پر آیا مکمل پابندی لگانی ہے یا سخت ریگولیشن متعارف کرانے ہیں۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button