ابراہیم خان
توقعات کے عین مطابق اسلام آباد کی سیشن کورٹ کے جج ہمایون دلاور نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنا دی۔ اس سزا کی بنیاد پر عمران خان کو انتخابات میں حصہ لینے سے 5 سال کے لیے نااہل کر دیا گیا جبکہ جج صاحب نے فیصلے کے ساتھ ہی عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کر دئے جس کے بعد انہیں لاہور سے ان کی رہائش گاہ زمان پارک سے گرفتار کر لیا گیا۔ یہ فیصلہ عمران خان کی عدم موجودگی میں سنایا گیا تاہم یہ فیصلہ کسی بھی طور غیر متوقع نہیں تھا۔
جج ہمایون دلاور نے جس تیزی سے پانچ یوم سے کم میں یہ مقدمہ نمٹایا، اس طرز عمل کو دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں ایسے ہونہار جج موجود ہیں جن کو اگر لاکھوں زیر التواء کیسز حوالے کر دئے جائیں تو اس ملک میں سالوں سے جو عزیز ہم وطن حصول انصاف کے لیے بلک رہے ہیں انہیں انصاف مل جائے گا۔ پانچ دنوں میں اتنا اہم مقدمہ ‘نمٹانے’ پر جج ہمایون دلاور کو توپوں کی سلامی دینی چاہیے۔ ہمایون دلاور کی بولڈنس کی داد دینی چاہیے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران ہی انہوں نے عمران خان اور ان کے وکلاء کو کہہ دیا تھا کہ ‘میرے فیصلے سے ڈرلگ رہا ہے؟’۔ اس بات سے انہوں نے گویا اپنے ارادے آشکارا کر دئے تھے۔ عمران خان ہمایون دلاور پر عدم اطمینان کا اظہار کر چکے تھے اس کے باوجود ہمایوں دلاور اپنی دھن کے پکے رہے اور مقدمہ پورا کرکے پانچویں دن فیصلہ بھی جاری کر دیا۔
اس معاملے میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی عمران خان کی جج بدلنے کی استدعا مسترد کر کے ہمایون دلاور پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈسٹرکٹ سیشن جج ہمایون دلاور کو محض کیس کی سماعت جاری رکھنے کا ہی اختیار نہیں دیا بلکہ توشہ خانہ کیس کو ناقابل سماعت قرار دے کر تیسری بار اس بات کا فیصلہ بھی ہمایون دلاور کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا کہ وہ خود پھر سے اس بات کا فیصلہ کریں کہ توشہ خانہ کیس قابل سماعت ہے یا نہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ہمایون دلاور کے حق میں یہ فیصلہ جاری کیا۔ عامر فاروق پر بھی پاکستان تحریک انصاف نے عدم اعتماد کیا تھا جبکہ اس اعتبار سے موجودہ فیصلہ جاری کرنے میں دونوں ججوں کا تال میل موجود تھا۔ جج ہمایون دلاور کے اس فیصلے میں انصاف ہوتا نظر نہیں آیا، جو دکھائی دینا ضروری تھا۔ جج ہمایون دلاور کے پاس 5 اگست کی صبح یہ آپشن موجود تھا کہ وہ عدالت عالیہ اسلام آباد کے حکم کی تائید کرتے ہوئے توشہ خانہ کیس کو ناقابل سماعت قرار دے کر اپنے آپ کو اس مقدمے سے ایک طرف کر لیتے، لیکن شائد اس سے پہلے وہ اسی مقدمے کو دو بار قابل سماعت قرار دینے کی وجہ سے اپنی ہی بات کو رد نہیں کرنا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے نہایت عجلت میں مکمل کئے گئے، اس مقدمے کو نمٹا دیا۔
اس مقدمے میں ملزم نے اپنے جن گواہان کو طلب کرنے کی درخواست کی تھی، انہیں طلب نہیں کیا گیا۔ ملزم کو حق صفائی سے بھی محروم کرنے کی بات ہوئی۔ یہ فیصلہ جج ہمایون دلاور کی ساکھ کے ساتھ عدالتی تاریخ میں ان کے ساتھ ہمیشہ نتھی رہے گا جبکہ یہ فیصلہ ایک ناخوشگوار مثال کے طور پر ہمیشہ یاد بھی کیا جاتا رہے گا۔
اس فیصلے کے مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس پر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ فیصلے کے اہم نکات دیکھ لئے جائیں۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج ہمایوں دلاور کے جاری کردہ فیصلے کے مطابق عمران خان کو تین سالہ قید کے علاوہ ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم نے الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات جمع کروائیں جبکہ ملزم کرپٹ پریکٹسز میں مرتکب پائے گئے ہیں۔ یہ محفوظ فیصلہ سنانے کے بعد عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ اس حکم پر بھی فوری طور پر عمل ہوا اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو لاہور سے گرفتار کرنے کے بعد اسلام آباد پہنچا دیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے گرفتاری پر احتجاج کیا۔ وائس چئیرمین شاہ محمود قریشی نے کور کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا جس میں انہوں نے اس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے چئیرمین کی رہائی کے لئے قانونی جنگ لڑے گی۔ اس اجلاس کے بعد پارٹی کا مزید موقف بھی سامنے آ جائے گا، تاہم میڈیا سیل کے ترجمان نے سیشن عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے متعصب فیصلہ قرار دیا ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم نے اثاثے جان بوجھ کر چھپائے، تحائف سے متعلق غلط بیانی کی گئی، جس سے بددیانتی ثابت ہوتی ہے۔ اس فیصلے کے ذریعے سزا یافتہ ہونے کے باعث چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان پانچ سال تک الیکشن لڑنے کے اہل نہیں رہے۔ اس سے قبل عدالت میں نہ تو چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان پیش ہوئے نہ ہی ان کا کوئی وکیل حاضر ہوا۔
جج ہمایون دلاور کو بتایا گیا کہ ملزم کے وکیل خواجہ حارث نیب عدالت میں مصروف ہیں۔ اس پر ہمایون دلاور نے دو بار سماعت کا وقفہ کیا اور پھر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ فیصلہ محفوظ کرنے سے قبل سیشن جج ہمایوں دلاور نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے وکلاء کے پیش ہونے کے لئے سماعت میں دو بار وقفہ لیا تاہم عمران خان کے وکلاء عدالت میں پیش نہ ہوئے۔ سماعت 12 بجے دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ نیب کورٹ میں ہمارا بندہ ساڑھے 11 بجے گیا تھا۔ نائب کورٹ نے بتایا کہ خواجہ حارث وہاں پیش نہیں ہوئے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ اس عدالت سے غلط بیانی کی گئی۔ عمران خان کہ وکلاء کی عدالت سے غیر حاضری وہ واحد نقطہ ہے ،جو جج ہمایون دلاور کے حق میں جاتا ہے۔ یہ غیر حاضری کسی غلطی کا نتیجہ ہے یا پھر حکمت عملی کا شاخسانہ، مگر ہر دونوں صورتوں میں یہ نقطہ عمران خان کے خلاف گیا ہے۔
ناقدین اس بات پر تنقید کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے وکلاء کو عدالت میں موجود ہونا چاہیے تھا، اس عدم پیشی کی وجہ سے جج ہمایون دلاور نے فیصلہ محفوظ کیا اور پھر اسے ساڑھے 12 بجے سنا ڈالا۔ فیصلہ سنانے کے دو گھنٹے کے اندر اندر عمران خان کو لاہور سے گرفتار کر کے بذریعہ ہیلی کاپٹر اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی لیگل ٹیم نے سیشن جج اسلام آباد کے عدالتی فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ قانون کے تحت عمران خان کے وکلاء کے پاس اب بھی دو لائف لائن باقی بچی ہیں جن میں پہلی اسلام آباد ہائی کورٹ ہے جبکہ دوسری سپریم کورٹ آف پاکستان ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کے خلاف عمران خان پہلے ہی عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس بنیاد پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے عمران خان کے حق میں کسی ریلیف کا ملنا بظاہر مشکل دکھائی دیتا ہے۔ البتہ عمران خان کے لئے کوئی نرم گوشہ سپریم کورٹ میں ضرور محسوس کیا جا رہا ہے، لیکن عمران خان کو اب سب سے بڑا مسئلہ 15 ستمبر سے پہلے سپریم کورٹ پہنچنے کا درپیش ہوگا۔
قانونی ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی سیشن عدالت کے فیصلے کے خلاف رٹ کو لٹکایا جائے گا۔ اس مقدمے کو حیلے بہانوں سے طول دیا جاسکتا ہے۔ اس مقدمے کو اس حد تک طول دیا جا سکتا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان عطاء عمر بندیال ریٹائر ہو جائیں۔ عطاء عمر بندیال 15 ستمبر کو اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ شائد اس ممکنہ تاخیر کو ہی مد نظر رکھتے ہوئے عین ممکن ہے کہ عمران خان کے وکلاء ہفتہ کے روز ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد میں حاضر نہیں ہوئے تاکہ جلد سے جلد عمران خان کے خلاف اس فیصلے کو لے کر سپریم کورٹ تک 15 ستمبر سے پہلے پہنچا جائے۔ عمران خان کے لئے یہ مرحلہ مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ ان دنوں اعلی عدلیہ کی تعطیلات بھی چل رہی ہیں جس کی وجہ سے سپریم کورٹ تک پہنچنا زیادہ کٹھن دکھائی دے رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کیا توقعات کے مطابق اس معاملے کو سست روی سے آگے بڑھاتا ہے یا پھر ہمایون دلاور کے فیصلے کے حق یا خلاف کوئی فیصلہ جلدجاری کر دیتا ہے، جلد فیصلہ ہونے کی صورت میں سپریم کورٹ سے عمران خان کو ریلیف ملنے کے امکانات موجود ہیں۔
عمران خان کے لئے دوسرا بڑا چیلنج اب یہ ہوگا کہ ان کے خلاف اب القادر ٹرسٹ اور فارن فنڈنگ کیس کے ساتھ ساتھ سائفر کے معاملے پر بھی عدالتی کاروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔ ان معاملات پر اگر عمران خان کے خلاف کوئی اور فیصلہ آ جاتا ہے تو اس سے ان کو عدالتی جنگ میں مزید مشکلات آڑے آ سکتی ہیں۔
عمران خان کے خلاف ایک اور بڑا چیلنج الیکشن کمیشن ہے۔ الیکشن کمیشن ہفتہ کے روز تعطیل کے باوجود اس انتظار میں تھا کہ ہمایون دلاور کی عدالت سے اسے تفصیلی فیصلہ مل جائے تو وہ اس فیصلے کی بنیاد پر عمران خان کو پاکستان تحریک انصاف کی قیادت سے ہٹانے کا فیصلہ جاری کردے۔ یہ فیصلہ کسی بھی وقت سامنے آ سکتا ہے جس کے بعد پارٹی قیادت عمران خان کے اعلان کے مطابق وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے پاس چلی جائے گی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اس حکومت نے جاتے جاتے عمران خان کو قانونی مقدمات میں پھنسانے کا جو جال تیار کر رکھا تھا، اس کے پہلے مرحلے میں اسے کامیابی مل چکی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کا اب امتحان ہے کہ وہ کس طرح عمران خان کو اس مشکل سے نجات دلا سکتے ہیں؟ قانونی ٹیم کے لئے سب سے بڑا چیلنج اگر کوئی ہے تو وہ 15 ستمبر کی ڈیڈ لائن ہے۔ 15 ستمبر سے پہلے پہلے عمران خان کی درخواست سپریم کورٹ آف پاکستان نہ پہنچی تو پھر نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے پاکستان تحریک انصاف کے حلقے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کر رہے۔ اس لئے قانونی ٹیم کے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کی شدید خواہش ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کے حصول کا تقاضا ہے کہ جس طرح نواز شریف کو عدالت سے نااہل کیا گیا تھا اسی عمل سے عمران خان کو بھی گزارا جائے۔
نوٹ: لکھاری کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں