نوشہرہ: خویشگی پایان کے متعدد بچے ہیضے کا شکار
رخما یوسفزئی
نوشہرہ کے علاقے خویشگی پایان میں گزشتہ سال سیلاب کے بعد متعدد بچے دیگر بیماریوں کے ساتھ ساتھ ہیضے کی بیماری میں بھی مبتلا ہوئے جبکہ گھر والوں کا کہنا ہے کہ ہسپتال اور مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود صحتیاب نہ ہو سکے۔
اس علاقے سے تعلق رکھنے والی رقیہ بی بی کا کہنا ہے کہ سیلاب کے بعد ان کے بچوں کو قے کی شکایت ہوئی، پیٹ خراب رہنے لگے جس کے بعد وہ انہیں قریبی ہسپتال لے کر گئے لیکن مناسب علاج نہ ہونے اور ادویات نہ ملنے کی وجہ سے ان کے بچے مکمل طور پر صحتیاب نہ ہو سکے، ”بچوں کو ہیضے کی بیماری ہے اور اب ٹھیک نہیں ہوتے، پانی اور واش رومز بھی خراب ہیں، ان کے پیٹ بھی خراب رہتے ہیں پانی کی وجہ سے کیونکہ پانی بھی خراب ہے، پانی کھڑا ہو گیا تھا، گندا ہو گیا تھا اور صاف پانی نہیں مل رہا، ہم ڈاکٹر کے پاس گئے، ادھر پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس جائیں تو پیسوں کا مسئلہ ہوتا ہے، روزگار ہمارے خراب ہو گئے ہیں، سرکاری ڈاکٹر کے پاس جائیں تو وہاں لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے، ٹھیک طرح سے کام بھی نہیں کرتے، ہمیں دوائیاں نہیں دیں، لکھ کر دے دیتے ہیں دیتے نہیں ہیں، سرکاری ہسپتال میں ہمیں نہیں ملتی دوائی، اسی طرح لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے خواہ بچہ مر ہی کیوں نا رہا ہو، وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے لائن میں بس کھڑا ہونا پڑتا ہے، نمبر سے آپ کو آگے نہیں کرتے۔”
رقیہ بی بی کے مطابق ہیضے کی وباء کی سب سے بڑی وجہ ان کے علاقے میں صاف پانی سمیت واش رومز کی عدم موجودگی ہے، دوسرے مردوں کا روزگار نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ مہنگے علاج نہیں کرا سکتے، ”پیسوں سے خریدتے ہیں، مفت دوائیاں نہیں ملتیں، دوسرے روزگار بھی سارے خراب ہیں، ہمیں دوائیاں دے کر کہہ دیتے ہیں کہ اس کے ساتھ بچہ ٹھیک ہو جائے گا لیکن اس کا گزارہ نہیں ہوتا، تھوڑا بہت گزارہ ہو جاتا ہے لیکن اک بار پھر پیٹ خراب ہو جاتا ہے اور فرق بالکل ہوتا نہیں ہے، باتھ رومز بھی سارے خراب ہو چکے ہیں، پانی بھی خراب ہے، روزگار بھی نہیں اور خوراک بھی ٹھیک طرح سے نہیں ملتی۔”
دوسری جانب ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرح کے ملک میں جہاں غربت زیادہ ہے اور صاف پانی کا مسئلہ ہے وہاں ہیضے کے مرض کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ ہے۔
محکمہ صحت نوشہرہ کے اہلکار ڈاکٹر اسد کے مطابق ہیضہ ایک متعدی بیماری ہے جو انسانی فضلے کے زریعے ایک انسان سے دوسرے کو متقل ہو سکتی ہے جبکہ قے اور مسلسل دست اس کی واضح علامات ہیں، ”ہیضہ ایک متعدی مرض ہے جو ایک سے دوسرے کو لاحق ہوتا ہے، ہیضے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے جراثیم انسانی فضلے میں خارج ہوتے ہیں تو اگر وہ پانی میں مل جائیں یا کسی بھی طرح سے دوسرے انسان کے جسم میں داخل ہو جائیں تو اسے ہیضہ ہو جاتا ہے جسے کولرا کہا جاتا ہے، اور کولرا کی بنیادی علامات یہ ہیں کہ مریض کو قے اور دست کی شکایت ہوتی ہے، بخار بھی ہو سکتا ہے لیکن زیادہ واضح علامات قے اور دست کی شکایت ہے، چاول کے پانی کی طرح اس دست کا رنگ ہوتا ہے اور صرف پانی ہوتا ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہیضے کا مریض اگر دو دفعہ بھی سٹول پاس کرے تو اس کے ساتھ وہ شاک میں بھی جا سکتا ہے اور اس کا بلڈ پریشر گر سکتا ہے۔”
ڈاکٹر اسد کا کہنا ہے کہ ہیضے کی وباء سے بچاؤ کیلئے سیلاب زدہ علاقوں کے لوگوں کو چاہئے پینے کے پانی کو ابالا کریں اور واش روم استعمال کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں کو صابن سے دھویا کریں تاکہ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو اس بیماری سے بچا سکیں۔
دوسری جانب ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نوشہرہ ڈاکٹر شعیب کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے 22 یونین کونسلوں کو متاثر کیا اور ان یونینن کونسلوں میں محکمہ صحت نوشہرہ نے سب سے پہلے رسپانس دیا تھا، ”ہمارے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کی طرف سے، الف سے ی تک، سب سے پہلے رسپانس ہمارے ڈی ایچ او آفس نے دیا تھا، پراونشل گورنمنٹ کی سپورٹ پر ہم نے اپنا رسپانس دیا، این جی او اور باقی کے لوگ دیر سے آئے تھے، ہمارے پاس ہر طرح کی میڈیسن اپنی، ایچ آر (ہیومن ریسرسز)، ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل سٹاف، یہ سب دستیاب تھا اور ہم نے تقریباً 25 میڈیکل ریلیف کیمپس ان علاقوں میں لگائے تھے جہاں ہم نے ہزاروں لوگوں کا علاج کیا، اللہ کے فضل سے کوئی وباء نہیں پھیلی، نا خسرہ نا ہیضہ، سب کچھ کنٹرول میں تھا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ نوشہرہ میں کہیں بھی متاثرین سیلاب میں سے کوئی بھی صحت کے حوالے سے مسائل کا شکار ہو تو وہ فوری طور پر ان کے دفتر کے ساتھ رابطہ کریں، ”ہماری کوشش ہو گی کہ ان کے مسائل فوری طور پر حل کریں۔”