اس طرح تعاون نہیں کیا گیا جس کے ہم حقدار ہیں۔ متاثرین سیلاب
نبی جان اورکزئی
خیبر پختونخوا میں سیلاب کے بعد مختلف فلاحی و امدادی تنظیموں کی جانب سے متاثرین سیلاب کے ساتھ امداد کی گئی تاہم سیلاب سے متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ مخصوص پالیسی اور حکمت عملی کی عدم مجودگی کے باعث ان کے ساتھ اس طرح تعاون نہیں کیا گیا جس کے وہ حقدار ہیں۔
چارسدہ کے رہائشی حیات خان کے مطابق اگرچہ سیلاب کے موقع پر متاثرین کی مدد ضرور کی گئی تاہم امدادی تنظیموں اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مناسب پالیسی وضع نہ کئے جانے کے باعث بہت سے متاثرین خوراک، صحت اور دوبارہ بحالی کے سلسلے میں ہونے والی امداد سے آج بھی محروم ہیں، ”ہمیں جن چیزوں کی ضرورت تھی، جیسے ہمارے پاس زیادہ تر فری میڈیکل کیمپ والے آئے، میڈیسن، وہ بہت زیادہ آتے ہیں، ہمیں اتنی ضرورت نہیں تھی اور جس چیز کی ہمیں زیادہ ضرورت تھی جیسے ابھی سردی ہے تو ہمیں بسترے اور کمبل درکار تھے، گرم کپڑے اور سویٹرز چاہیے تھے یا اس کے علاوہ جو گھر اور کرے تباہ ہو گئے تھے، تو ان کی ضرورت تھی لیکن نہ کمرے بنے نہ ہی گھر اور نہ ہی سردی سے بچاؤ کیلئے ہمارے پاس کوئی چیز آئی، زیادہ تر میڈیکل کیمپ وال آتے ہیں، تو فری میڈیکل کیمپس بہت زیادہ ہوئے باقی اب ہمیں اس کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں ہے، ہمیں زیادہ ضرورت ہے گرم کپڑوں کی، کمبل کی یا جو گھر اور کمرے تباہ ہوئے ہیں ان کو بنانے کی ضرورت ہے۔”
سیلاب کے موقع پر دیگر غیرسرکاری تنظیموں کی طرح الخدمت فاؤنڈیشن نے بھی متاثرین کی مدد کی تاہم تنظیم کے صوبائی صدر خالد وقاص نے صوبائی حکومت پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ اس موقع پر کوئی ایسا پلان نہیں بنایا گیا تھا کہ امدادی اداروں کو بتایا جاتا کہ آپ کسی مخصوص سیکٹر میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں کیونکہ بعض علاقوں میں دو دو بار ایک جیسی امداد دی گئی ہے، ”یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی تھی یا پھر متعلقہ ضلع کی انتظامیہ کی کہ جن این جی اوز کی جس فیلڈ میں مہارت تھی مثلاً کوئی ہیلتھ میں ہے تو اسے ہیلتھ سیکٹر میں ٹاسک حوالہ کیا جاتا تاکہ ڈپلیکیشن نہ ہوتی، اب کسی گھرانے کو میں نے بھی فوڈ پیکج دیا دوسرے نے بھی آ کر وہی فوڈ پیکج دیا جبکہ اس کو اس کے علاوہ بھی کوئی ضروت ہو گی، تو یہ ڈویژن آف ورک جو ہے یہ کلسٹر میٹنگ میں کی جاتی خواہ وہ سرکاری ادارے ہوں یا بین الاقوامی ادارے یا پھر جو مقامی این جی اوز ہیں، یہ ان کا کام ہے، اپنی آرگنائزیشن کی سطح پر تو فیلڈ میں جس چیز کی ڈیمانڈ ہوتی ہے اس کے مطابق ہم اپنی حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں، مختلف میٹنگز میں یہ ڈیمانڈ میں نے خود بھی کی ہے، چیف سیکرٹری کے ساتھ ہماری جو میٹنگ ہوئی، یا اسی طرح متعلقہ اضلاع میں جو ہماری میٹگز ہوئیں ان میں بھی کہ بہت آسانی رہے گی اگر حکومتی ادارے، حکومت اس طرح کی کلسٹر میٹنگز میں مختلد این جی اوز، اداروں کو ٹاسک حوالہ کرے تاکہ کام بھی آسان ہو اور وسائل بھی مناسب جگہوں پر خرچ ہوں۔”
اس حوالے سے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر چارسدہ عثمان جیلانی کا کہنا تھا کہ متاثرین سیلاب کی امداد کیلئے حکومت نے الگ پالیسی وضع کی تھی جس کے تحت ڈیڑھ سو سے زائد امدادی اداروں کو متاثرہ علاقوں میں مختلف سیکٹرز میں کام کی اجازت دی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب کے بعد اب تک کم و بیش ساڑھے چار لاکھ متاثرینوں کو امدادی سامان دیا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، ”حکومت کی پالیسی اس میں بہت کلیئر تھی، گورنمنٹ کی انسٹرکشنز تھیں کہ جتنی بھی سامان کی ڈسٹری بیوشن ہوتی ہے چاہے فوڈ آئٹمز ہو یا نان فوڈ ہو وہ شفاف طریقے سے ہو، غیرجانبدارانہ ہو اور اس میں کسی قسم کی ڈپلیکیشن نہ ہو، اس سلسلے میں گورنمنٹ کی جو سب سے پہلی ترجیح تھی، جو گورنمنٹ نے ایک ٹول یوز کیا وہ تھا کہ ڈیجیٹل طریقے سے آن لائن جتنی بھی ٹیکنالوجی دستیاب ہے اس کو بروئے کار لایا جائے، اور اس کے بعد ضلعی انتظامیہ کے پاس آن لائن ڈیش بورڈز تھے جس میں فیلڈ کے بندے بھی ڈیٹا اپ لوڈ کر رہے تھے اور ہمارے اپنے بندے، آپریٹرز بھی بیٹھ کر آپریٹ کر رہے تھے، اور جس جس کو بھی ہم ٹوکن دے رہے تھے ان سے ہم ان کی بیسک ڈی ٹیلز جیسے سی این آئی سی وغیرہ لے رہے تھے تاکہ ہمارے پاس ہر ایک ریکارڈ پر آ جائے، لاگ بن جائے، ہمیں پتہ لگے کہ کس کس کو سامان ملا ہے اور اگلی دفعہ ہم ڈپلیکیشن کو یقینی بنائیں کہ ڈپلیکیشن نہ ہو۔”
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلاب یا دیگر قدرتی آفات کے موقع پر امدادی ادارے عوام کی امداد کیلئے ایک پالیسی وضع کرتے ہیں جس کے تحت متاثرین سیلاب کو خوراک، صحت، شیلٹر، پانی اور اس طرح دیگر مدات میں بروقت امداد مہیا کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اب تک ایسا کوئی قانون یا پالیسی نہیں کہ جس پر عمل کیا جائے اور جس سے متاثرین کو کوئی فائدہ پہنچ سکے۔