شازیہ نثار
”میری زندگی عبرت ہے ان لڑکیوں کیلئے جو اپنوں کے اعتبار کو توڑ کر کسی غیر پر بھروسہ کر کے گھر چھوڑ دیتی ہیں، میں نے بھی یہی غلطی کی تھی۔ چند دن کی محبت یا دوستی جو بھی تھی میں نے اپنی زندگی کو تاریک کر دیا، مجھے اپنا ہی شوہر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا کر چلا گیا۔ چند دن کی محبت نے زندگی برباد کر ڈالی، سسرال بھی جعلی نکلا اور گھر والے بھی اب قبول کرنے کو تیار نہیں۔ کیا معلوم تھا شوہر نام سمیت دھوکہ ہو گا۔”
یہ کہانی ہے میڈیکل فائنل ایئر کی طالبہ کی جس کے ایک جھوٹے خواب نے اس کی زندگی برباد کر ڈالی۔
سنٹرل جیل میں پابند سلاسل 23 سالہ نگین نے بتایا کہ کھاتے پیتے پڑھے لکھے گھرانے سے اس کا تعلق ہے، ”3 بہنیں ڈاکٹر ہیں اور میں میڈیکل فائنل ایئر کی سٹوڈنٹ ہوں، گھر چونکہ پشاور سے دور تھا تو گرلز ہاسٹل میں رہتی تھی، سب گھر والوں کے پاس اپنی اپنی گاڑی تھی تو بابا نے مجھے بھی یونیورسٹی جانے کیلئے گاڑی لے کے دی، یونیورسٹی کے بعد میں جم جاتی تھی، ایک دن راستے میں گاڑی خراب ہوئی تو میں کار سے اتری ادھر ادھر دیکھ رہی تھی کہ ایک گاڑی پاس آ کر رکی اور کہا کہ میں سلمان ہوں، حساس ادارے میں ذمہ دار افسر ہوں، آپ پریشان نہ ہوں، آپ کے ہاسٹل کے پاس رہتا ہوں، آپ کو ڈراپ کر دوں گا۔
بس گاڑی خراب کیا ہوئی کہ زندگی ہی خراب ہو گئی؛ اور میں نے لفٹ لے لیا۔ آپس میں دوستی ہوئے ہفتہ ہی گزرا تھا کہ مجھے کسی دوست کے گھر لے گیا اور زبردستی جسمانی تعلق قائم کیا جس کے بعد مجھے ہاسٹل چھوڑ کر چلا گیا۔ وہ شکل و صورت میں بھی کچھ زیادہ خاص نہیں تھا مگر شاید مجھے اس کے سیکورٹی آفیسر کے جھوٹ نے اس کی طرف مائل کیا اور اگلے ہی دن مجھے لے جا کے مجھ سے نکاح کیا اور یونیورسٹی ٹاؤن میں اپنے گھر لے گیا، گھر میں 50 سال کے لگ بھگ ایک مرد اور عورت، 2 جوان لڑکیاں اور ایک لڑکا موجود تھا جن کا تعارف میرے شوہر نے ماں باپ اور بہن بھائی کہہ کر کرایا۔
نکاح کے وقت پتہ چلا کہ میرے شوہر کا نام سلمان نہیں بلکہ عرفان تھا، میں ان لوگوں کے ساتھ رہنے لگی۔ میں جب ان گھر والوں کے قریب جاتی تو وہ باتیں کرتے کرتے خاموش ہو جاتے اور کہتے تم کم عقل و بے وقوف ہو اس لیے ہم باتوں میں شامل نہیں کرتے۔
کچھ دن بعد پتہ چلا کہ شوہر افسر نہیں تھا وہ کوئی کام نہیں کرتا تھا، شادی کے پہلے ہی مہینے مجھے مارنا پیٹنا شروع کر دیا، میں گھر سے بھاگ گئی تو میرا پیچھا کیا حیات آباد میں مجھ پر فائرنگ کی اور پھر پکڑ کر ساتھ لے آیا۔ میں 7 ماہ کی شادی شدہ زندگی میں دو دفعہ گھر سے بھاگی مگر پھر مجھے پکڑ کر لے جاتا، وہ بہت اثر رسوخ والا تھا اور پیسہ بھی تھا، یہ سب کہاں سے آتا تھا کچھ اندازہ نہیں تھا۔
ایک رات ساس سسر سمیت پشاور اسلام آباد موٹروے سے پشاور آ رہے تھے کہ پولیس پارٹی نے روکنا چاہا مگر میرا شوہر نہیں رکا۔ مگر پولیس نے ہمیں پکڑ لیا۔ اور شوہر نے بھاگنے کی شاید کوشش کی، کچھ سمجھ نہیں پڑی پولیس ساتھ لے گئی، تھانے پہنچ کر پوچھا اس گینگ میں کب سے کام کرتی ہو تو میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی کہ کیسا گینگ، میرے شوہر کو بلاؤ تو پولیس نے بتایا وہ کارلفٹر گروپ کا سرغنہ تھا، پولیس مقابلے میں مارا گیا اور جس کو ساس سسر کہہ رہی ہو وہ کارلفٹر عرفان کے چوری کے ساتھی ہیں ماں باپ نہیں۔
پولیس سے پتا چلا کہ عرفان پچلھے 17 سال سے گاڑیاں چوری کرنے اور چوری کی گاڑیاں خریدنے کے سینکڑوں مقدمات میں پولیس کو مطلوب تھا۔ پولیس نے تفتیش کے بعد جیل بھیجا تو یہاں میری جعلی ساس بھی موجود تھی، سوال کرنے پر کہا تم سےکوئی تعلق نہیں اور نہ قانونی مدد کر سکتے ہیں پولیس نے کار چوری کے 5 مقدمات میں مجھے نامزد کیا ہے اور یوں آج میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید ہوں اور نہیں جانتی کب رہائی ملتی ہے اور یہاں سے نکل کر کہاں جاؤ گی اور معاشرہ مجھے کیسے قبول کرے گا۔
بابا کی لاڈلی تھی مگر خود ہی اپنے جنت جیسے گھر کے دروازے خود پر بند کر دیئے، کوئی میرا نام بھی نہیں سننا نہیں چاہتا اور کسی سے بھی رابطہ نہیں کر سکتی۔”
نگین جیسی ایسی کئی کہانیاں ہمارے معاشرے میں بکھری پڑی ہیں۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کیلئے محبت صبح کا ستارہ بن جاتی ہے کیونکہ بعض لوگوں کیلئے محبت ایک سراب بن جاتی ہے اور ساری زندگی اس سراب کے پیچھے بھاگتے برباد ہو جاتی ہے۔