لائف سٹائلکالم

سی ایس ایس 2022: کیا انگریزی قابلیت کا معیار ہے؟

ارم رحمٰن

پاکستان کے سب سے اہم امتحان سی ایس ایس کو بہترین نمبروں سے پاس کرنا اور پھر شاندار عہدے پر فائز ہونا کم و بیش پاکستان میں اکثریت کا خواب ہوتا ہے۔ اور اس میں ملنے والی کامیابی اور کامیاب ہونے والوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، 2022 کا نتیجہ ابھی کچھ دن پہلے ہی آیا اور جو تفصیل سامنے آئی وہ بہت افسوسناک ہے۔

ایف پی ایس سی کے مطابق تقریباً 32 ہزار 59 امیدواروں نے درخواستیں جمع کروائیں لیکن 20 ہزار 265 امیدواروں نے حصہ لیا جبکہ پاس ہونے والے خوش نصیب افراد فقط 393 رہے اور ان میں سے جو ٹاپ کے کچھ لوگ ہوں گے انھیں عہدے ملنے کی امید ہو سکتی ہے۔ الغرض اس سب سے بڑے امتحان میں کامیابی کی شرح محض 1.91 رہی۔

اس قدر کم شرح کی دو اہم وجوہات نظر آئیں؛ ایک تو شدید محنتی، بہترین رٹا لگانے والے اور دوسرا انگلش میڈیم سے بہترین انگلش بولنے اور پڑھنے والے، باقی درمیانی عوام میں سے جو لوگ تھے ہمت کے بل بوتے پر درخواستیں جمع کروائیں، امتحان دینے کا لیبل لگوایا اور بہت کم خوش بخت پاس ہو سکے۔

پاکستان ایسا ملک ہے کہ انگریزی کو ایسا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے کہ انگریز کو بھی مات کر دینے پر تلے ہیں حالانکہ انگریزی محض ایک زبان ہے اور پاک و ہند کے علاوہ بہت کم ممالک میں اس کی اتنی پذیرائی ہوتی ہے۔

افغانستان جیسے ملک میں تین زبانوں میں سی ایس ایس کا امتحان لیا جاتا ہے، انڈیا انگلش کا ہرچار کرتا ہے مگر 22 زبانوں میں امتحان لیتے ہیں، چین، جاپان، جرمنی اور کئی دیگر ممالک ترقی یافتہ ہیں اور انگریزی زبان بولنا تک پسند نہیں کرتے۔

انگریزی زبان آسان ہے اور اکثر جگہوں پر سمجھی جاتی ہے لہذا یہ پوری دنیا کی زبان کہلاتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ اپنی قومی زبان کی وقعت اور اہمیت کم کر دی جائے۔ انگریزی زبان بولنے اور سیکھنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن اس زبان کو لیاقت اور قابلیت کا پیمانہ بنا لیا جائے یہ سراسر اپنی قومی زبان کے ساتھ زیادتی ہے۔

اور جو اس بدیسی زبان کا ماہر ہے وہ ہی معاشرے میں عزت اور مقام پاتا ہے جبکہ ایسے لاکھوں لوگ ہوں گے جو بے انتہا قابل اور باصلاحیت ہوں گے لیکن اس زبان کی وجہ سے کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک ہم اس لسانی تعصب سے نہیں نکل سکے۔ پورے وطن میں ہی زبانوں کے لحاظ سے خود کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجھنے والے بہت ملیں گے۔

آج کل ایک مضمون جو بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے وہ ہے علم اللسان، یعنی زبانوں کا علم، اس مضمون کو لسانیات کا نام دیا گیا ہے۔

لسانیات کا سیدھا آسان فہم معنی ایسا علم ہے جس میں کسی زبان کا عمومی اور نظریاتی مطالعہ کیا جاتا ہے، مختلف زبانوں کی ترقی و ترویج، تاریخ اور نفسیاتی پہلو سے تحقیق کی جاتی ہے۔ ماہرین ازسرنو عہد حاضر میں لسانی تحقیقات کی جستجو میں ہیں اور وقت کے ساتھ اس کی وسعت اور مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ صورت میں زبان میں تبدیلیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔

برصغیر میں مسلمان اور ہندو 712 سے اکٹھے رہتے آئے ہیں؛ مذہبی اختلافات کے باوجود ہزارہا سال اکٹھے گزارے مگر 1867 میں اردو ہندی تنازعہ، دو قومی نظریے کی بنیاد پڑی اور یوں متحدہ برصضیر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔

یہ معاملہ جب مذہبی اور نظریہ کی بنیاد پر سختی پکڑ گیا تو 1947 میں برصضیر ہندوستان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تقسیم ہو گیا۔ پاکستان میں اردو زبان کو قومی زبان اور سیکولر نظام بھارت دیش میں ہندی قومی زبان قرار دی گئی۔

چلیے اس وقت پاکستان نظریے کی بنیاد پر بنا مگر 1971 میں پاکستان سے جب بنگلہ دیش الگ ہوا تو اس کی دیگر وجوہات میں سے ایک اہم وجہ زبان کا فرق بھی تھا۔

اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو سلطنت عثمانیہ کی بنیاد کے کمزور ہونے کی وجہ "لسانیات” ہی تھی۔ سلطنت عثمانیہ میں اکثریت ترکی، عربی، انگریزی” زبان بولنے والوں کی تھی، باہمی اتحاد کی وجہ سے خلافت کا سورج جگمگاتا رہا مگر جب ترکوں نے عربی اور انگریزی ریاستوں کے ساتھ ناروا سلوک شروع کیا اور واضح طور پر اس لسانی فرق کی وجہ سے انھیں اعلیٰ عہدوں سے محروم رکھا تو یہ مضبوط ترین خلافت ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی اور آج بھی اسی کشمکش کا شکار ہے۔

کراچی موومنٹ بھی اس سلسلے کی کڑی رہی ہے؛ مہاجر موومینٹ آج تک نفاق کا شکار ہے۔ ملک اس وقت ترقی کرتا ہے جب اس کا مرکز مضبوط ہوتا ہے جبکہ ہمارا وفاق بہت کمزور نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ پانچوں صوبوں میں لسانی تعصب عروج پر ہے۔

بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کسی نہتے آدمی کو اس لیے مار دیا جاتا ہے کہ وہ پنجابی ہے اور اسی طرح پنجاب میں بلوچ اور پختون کے خلاف نفرت موجود ہے۔ سندھ میں بھی بلوچ اور پختون کے خلاف نفرت کا مادہ پایا جاتا ہے۔

صوبائی سطح پر بھی بہت سی سیاسی جماعتوں کی بنیاد لسانیات ہر ہی ہے۔ صوبہ سرائیکستان کے دعوے کی وجہ صرف زبان ہے۔

نیا صوبہ بنانے میں کوئی قباحت نہیں کہ اگر انتظام و انصرام میں مشکل ہو رہی ہے یا آبادی کے گنجان ہونے کی وجہ سے نظم و نسق میں مشکل ہو رہی ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن صرف پنجابی اور سرائیکی کی وجہ سے نااتفاقی سمجھ سے بالاتر ہے۔

قائداعظم محمد علی جناح نے واضح کہا تھا کہ کوئی بھی پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان نہیں سب پاکستانی ہیں اور ہم سب کو ساری دنیا میں اپنا تعارف ایک پاکستانی کی حیثیت سے کروانا ہو گا۔

پاکستان میں جتنی بھی زبانیں بولی جاتی ہیں ان سب کی اہمیت ہے لیکن قومی زبان اردو ہے اور اردو کو ہی اہمیت ملنی چاہیے اور اس کے بعد صوبائی زبانوں کو جبکہ پاکستان میں آج بھی انگریزی زبان کا راج ہے۔

انگریزی زبان کو صرف زبان سمجھنا چاہیے؛ کسی کو آتی ہے تو ٹھیک، لیکن اس کی وجہ سے کسی شخص کی قابلیت اور اہلیت جانچنا سراسر غلط ہے، کیونکہ کچھ بھی ہو بچہ اپنی مادری زبان میں ہی اپنی صلاحیتیں دکھا سکتا ہے اور چونکہ قومی زبان اردو ہے اور ملک میں ہر جگہ آرام سے بولی اور سمجھی جاتی ہے لہذا ہر جگہ ہر عہدے، دفاتر، عدلیہ اور بیوروکریٹس کے امتحانات کے لیے اردو زبان اور اگر ممکن ہو سکے تو صوبائی زبانوں میں امتحانات لیے جائیں۔

ہر جگہ اردو بولنے والوں کو اہمیت اور عزت دی جائے؛ انگریزی زبان بولنے والوں سے مرعوب ہونے کی قطعی ضرورت نہیں اور جو افسران عہدوں پر آئیں ان میں اور عوام میں اس قدر جو فرق ہے وہ بھی ختم ہو سکے، اردو کو عزت اور پہچان مل سکے۔

انگریز چلے گئے انگریزی چھوڑ گئے اور آج جب ایک پاکستانی انگریزوں کے لب و لہجے میں ٹوٹی پھوٹی اردو بولتا ہے اور فخر سے کہتا ہے کہ میری اردو کمزور ہے, ساری تعلیم انگریزی زبان میں حاصل کی تو یہ خوشی نہیں شرم کا مقام ہونا چاہیے کہ اگر کوئی پاکستان میں رہ کر قومی زبان درست طریقے سے نہیں سمجھ اور بول سکتا تو عوام کی خیرخواہی اور بھلائی کے لیے کیا کر سکے گا کیونکہ اسے ان غریب اور حاجت مندوں کی مشکلات کا احساس تک نہیں ہو گا, وہ اپنی امارت کے بل بوتے پر انگلش میڈیم میں ہڑھا ہو گا اور مہنگی سے مہنگی تعیم حاصل کی ہو گی، اسے مجبور اور بے بس عوام کا دکھ سمجھ ہی نہیں آئے گا جبکہ عام عوام میں سے قابل اور ذہین لوگ جب اس مقابلے کے امتحان کو پاس کریں گے تو امید ہو گی کہ اپنی جیسی عوام کے لیے کچھ کر سکیں گے کیونکہ کسی پاکستانی کا اردو نہ بول پانا باعث تفاخر نہیں بلکہ اپنی قومی زبان اور قومی زبان بولنے والے کو کمتر سمجھنے کی دلیل ہے، امارت سے حاصل شدہ تعلیم کا گھمنڈ ہوسکتا ہے اور کسی اونچے عہدے تک پہنچنا صرف سٹیٹس سمبل، اور احساس برتری!

اگر پاکستان میں کسی کو عہدہ دینا ہے تو اردو اور صوبائی زبانوں پر عبور رکھنے والوں کو دیجیے پھر دیکھیے گا کہ کیسے یہ کلف زدی لگے لوگ جن کی گردن میں سریا ہے اور ٹیڑھا منہ کر کے انگریزی لہجے میں اردو بولتے ہیں، یۃ سیدھے نہیں ہوتے، ان کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے آدھے تیتر آدھے بٹیر کیونکہ ان لوگوں کی اپنی کوئی شناخت اور پہچان نہیں ہوتی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button