قربانی کا دکھاوا
سعدیہ بی بی
مجھے جانوروں سے بہت لگاؤ ہے۔ میری بچپن سے ہی خواہش رہی کہ میں کوئی جانور پالوں۔ میری یہ خواہش اس وقت پوری ہوئی جب میرے بابا روئی کے گالے جیسی ایک بھیڑ عید الاضحی کے موقع پر گھر لے آئے۔
بھیڑ تو جیسے گھر بھر کی لاڈ لی بن گئی۔ اس کے ممیانے کی آواز جیسے گھنٹی کی طرح بجتی اور میں دوڑ کر اس کے پاس پہنچ جاتی کہ شاید اسے کچھ چاہئے اور وہ آواز دے کر مجھے بلا رہی ہو۔
مگر جب عید کے موقعے پر اپنے اردگرد جانوروں سے برتاؤ دیکھتی ہوں تو جیسے کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ معصوم اور بے زبان جانوروں کو کہیں بھگا بھگا کر محلے میں دکھایا جا رہا ہوتا تو کہیں تاروں سے باندھ کر اونچی منزلوں سے اتارا یا چڑھایا جا رہا ہوتا ہے۔ عید کے روز کا سماں تو پوچھیے ہی مت، جیسے کشت و خون کا بازار ہے جو سڑکوں پر لگایا جا تا ہو۔
سنت ابراہیمی؟
قربانی سنت ابراہیمی ہے لیکن آج اس سنت کا جو رخ پاکستانی عوام دکھا رہے ہوتے ہیں وہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ عید سے کچھ دن پہلے دیکھا کہ محلے میں ایک گائے کو رسیوں سے باندھ کر ایک گھر کے اوپر چڑھایا جا رہا ہے جس کی چھت کافی اونچائی پر تھی۔ گھر کے اردگرد جگہ تنگ اور بجلی کی تاریں بھی تھیں۔ گائے واضح طور پر سہمی ہوئی تھی۔ نیچے دیکھا تو محلے کے لوگ یوں جمع تھے جیسے سرکس دیکھنے کے لئے آئے ہوں۔ ان کے شور اور سیٹیون کی آواز بھی معصوم گائے کو ڈرا رہی تھی۔ جانے اس گائے کا گھر پہنچ کر کیا حال ہوا ہو گا؟ سوچتی رہی کہ کیا وہ اپنے پیروں پر کھڑی رہی ہو گی یا اس کے قدم ڈر سے ڈگمگا رہے ہوں گے؟ کیا اسے کسی نے چارہ ڈالا ہو گا یا نہیں۔
دل میں سوچتی رہی کہ یا اللہ یہ کیسی سنت ابراہیمی ہے؟
دکھاوا
جانے قربانی کا جذبہ کہاں جا کر سو گیا ہے۔ ہمارے محلے میں تو جب بھی کوئی شخص جانور خرید کر لاتا ہے تو پہلا سوال اس کی قیمت کے بارے میں ہوتا ہے۔ قربانی کی کوئی قیمت ہوتی ہے کیا؟ ایک شخص جس کا دین سے ویسے تو کچھ لینا دینا نہیں مگر قربانی کے دنوں میں وہ ایک تگڑا سا بیل خرید لائے گا اور اُس بیل کی پورے محلے میں نمائش کرے گا۔
چراغاں کیا ہوتا ہے، لاٸٹیں لگائی ہوئیں ہیں، تمبو لگے ہوئے ہیں، بیٹھک چل رہی ہے اور جانوروں کی کیٹ واک بھی ہو رہی ہے۔ لوگ جانور کو ایسے نظروں اور باتوں میں تولتے ہیں جیسے وہ جیتا جاگتا نہیں بلکہ کوئی بے جان شے ہے مگر دنیاوی اعتبار سے بہت قیمتی بھی۔ پھر وہ آدمی مشہور ہو جاتا ہے کہ فلاں صاحب ہیں فلاں علاقے کے، ہر سال کئی لاکھ روپے کی قربانی کرتے ہیں۔ لوگوں کی تعریفیں بھی ہو جائیں گی اور واہ واہ بھی، شہرت بھی ملے گی لیکن یاد رکھیے کہ اللہ کی بارگاہ میں پھر حساب کتاب کیسے ہو گا؟
جانوروں سے سلوک
قربانی کی عید سے کافی پہلے جانور اس لئے خریدا جاتا ہے تاکہ اس کی بہترین دیکھ بھال کی جائے، اس کا خیال رکھا جائے، اسے خوب کھلایا پلایا جائے، اس کے ساتھ حسن سلوک رکھا جائے تاکہ عید والے روز تک اس سے اتنی محبت ہو جائے کہ اسے اپنے سے جدا کرتے یعنی اسے قربان کرتے ہوئے آپ کو تکلیف ہو۔
ایک دور پار کے جاننے والے کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ ان کے محلے میں تو ایک اور ہی عجیب عالم دیکھا۔ بکروں اور گائے بیلوں کو بھگایا جا رہا تھا اور ان کے پیچھے پیچھے محلے کے بچے شور مچاتے بھاگ رہے تھے۔ جو نہیں بھاگ رہا تھا اس غریب جانور کو کانوں سے پکڑ کر گھسیٹ رہے تھے، یا اسے چھڑیوں سے مار رہے تھے۔ کتنی تکلیف میں ہوں گے وہ بے زبان۔ احتجاج کے لئے زبان ہوتی تو بولتے۔ شاید دل میں کوس رہے ہوں گے ہم انسانوں کو کہ کیا یہ ہے تمہارا قربانی کا احساس؟
یہ رویہ آپ کو صرف پاکستان میں نظر آئے گا۔ پاکستان سے باہر ایسا کوئی ماحول نہیں ہے۔ آپ دوسرے ممالک چلے جاٸیں وہاں پر عید الضحی بلکل سادہ طریقے سے منائی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا
آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے۔ ٹک ٹاک ہو واٹس ایپ یا فیس بک، قربانی کے جانوروں کی تصویریں لگائی جاتی ہیں اور یوں ان کی سوشل میڈیا پر بھی تشہیر کی جاتی ہے۔ واٹس ایپ پر اسٹیٹس لگانے سے، ٹک ٹاک پہ اپنے قربانی کے جانوروں کی نمائش کرنے سے، فیس بک پہ تصویریں پوسٹ کرنا تو لوگوں کو مرعوب کرنا ہے نا۔ ان کی واہ واہ مقصود ہے یا اللہ کو راضی کرنا؟ قربانی تو نمائش کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔
تقوی
قرآن میں وضاحت کے ساتھ ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کو نہ گوشت پہنچتا ہے نہ خون پہنچتا ہے بلکہ اللہ کو تقوی پہنچتا ہے۔ تقوی، ہمارا اخلاص، ہماری نیت، ہم نے جس مقصد کے لیے قربانی کی ہے اصل چیز یہ ہے۔
اپنی استطاعت کے مطابق جانور خوب سے خوب تر لاٸیں، اللہ کی رضا اور اجروثواب کی خاطر۔ جانور کی قربانی میں ہمیں اللہ کی رضا مطلوب ہے۔ ہم اللہ کی عبادت کے لیے یہ کام کر رہے ہیں کسی کو دکھانا مقصود نہیں ہے۔
جب قربانی اللہ کی رضا کے لئے ہے تو پھر دکھاوا کیوں؟
سعدیہ بی بی ایف اے کی طالبہ ہیں اور مخلتف سماجی موضوعات پر بلاگ لکھتی رہتی ہیں۔