عامر لیاقت حسین: خامیاں نہیں خوبیاں تلاش کریں
مہرین خالد
باکردار ہے یا بدکردار، گناہگار ہے یا بے گناہ، جنتی ہے یا دوزخی چاہے وہ جس بھی شخصیت یا طبعیت کا مالک ہے ہر شخص نے اپنے اعمال کا حساب الله تعالیٰ کو دینا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اُس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ان سب کا حساب و جواب ہم لوگوں کو دیتے ہیں اور لوگ ہی ہمیں جج کر کے ہمارے اچھے برے ہونے کا تعین کرتے ہیں۔ ہر وہ انسان راہ راست سے بھٹکا ہوا ہے جو لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش میں یا پھر لوگوں کی باتوں سے ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔
ایک لمحے کے لیے یہ بات سر سے گزری کے عامر لیاقت حسین وفات پا گئے لیکن اس بات کا یقین کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی؛ موت تو برحق ہے، ہر انسان نے جانا ہے اس دنیا سے، لیکن یہ کہنا کہ عامر لیاقت حسین جیسے انسان جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتے ہیں ان کا وقت پر رخصت ہونا ہی بہتر ہے، تو کیا یہ بگاڑ صرف ان تک ہی محدود تھا؟
مختلف ٹی وی چینلز پروگرام سے لے کر ان کی ازدواجی زندگی کے سفر تک کا اندازہ لگانا کہ وہ کس قدر بگڑی شخصیت کے مالک تھے، ان پر بنائی گئی میمز سے ہم خوب لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ پیسے بھی کمائیں، ان کی موت پر کسی نے لکھا "ملک چھوڑنے کا کہا تھا دنیا ہی چھوڑ گیا۔۔” کسی نے لکھا "ایک اور شیطان چلا گیا۔۔” تو کسی نے یہ لکھا "آج میں محلے میں مٹھائی بانٹوں گی۔۔” ان باتوں پر بہت سے لوگوں نے واہ واہ کیا تو کسی نے ہنسنے والی ایموجیز سے ردعمل کا اظہار کیا۔ یہ سب دیکھ کر میرا بھی ان لوگوں کو داد دینے کو جی چاہ رہا تھا کہ انھیں بے حسی کی داد دوں کسی کو کم ظرفی کی تو کسی کو بے رحمی کی داد دوں لیکن رکو! ان لوگوں کو اپنا فرشتہ صفت نما روپ دکھانے میں دیر نہیں لگی۔
کچھ معزز شخصیات نے ویڈیو پیغامات کے ذریعے عامر لیاقت حسین کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے کردار کو برا بھلا نہ کہنے کی درخواست کی تو کسی نے لکھا "we will miss you amir bhai”، کسی نے لکھا "I love you Amir bhai” تو کسی نے لکھا "الله مغفرت فرمائے عامر بھائی کی” یہ وہ رخ ہیں جن کی چادر ہر انسان نے اوڑھ رکھی ہے۔ کبھی کسی کو شیطان کہا تو کبھی فرشتہ تو کبھی بے حس تو کبھی حساس یعنی اب کب باعزت اور کب بے عزت ہو جائیں اس کا اندازہ آپ کو خود بھی نہیں ہے۔
کسی کو شیطان کہنا یا کسی کی موت پر اس کے کردار کا مذاق اڑانا اس کی اجازت الله تعالیٰ نے ہمیں کب دی ہے؟ الله تعالیٰ کی طرف سے کب ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ الله تعالیٰ کے ہوتے ہوئے ہم اس کے بندوں کے اعمال کا حساب کریں؟
2012 میں عامر لیاقت حسین رمضان رحمان کے نام سے Ary Digital پر رمضان ٹرانسمیشن کرتے تھے، اس پروگرام میں امداد لینے کی غرض سے آنے والے ہر شخص کی الگ ہی دکھ بھری کہانی ہوتی تھی۔ جب کوئی بوڑھا ضعیف آتا تو عامر لیاقت حسین اسے ہاتھوں سے اٹھا کر سٹیج پر لے آتے، نہ جانے کتنی اولاد سے بچھڑی ہوئی ماؤں کا حوصلہ بنے، کتنے یتیم بچوں کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے اور کتنی بیوہ عورتوں کے لئے ضرورت زندگی کی اشیاء مہیاء کرتے، اور کتنے لوگوں کے لیے وسیلہ بنے اور ان کے اس نیک کام سے کتنے لوگ نیکی کی طرف راغب ہوئے اس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے کیونکہ ہم صرف ان کے شیطان ہونے کا اندازہ لگا سکتے ہیں، ان کے بہت سے خیر کے کاموں کو چھوڑ کر ان میں خوبیاں تلاش کرنے کے بجائے ہم نے ان میں بے حساب خامیاں نکالیں۔
کیونکہ ہم انسانوں کے روپ میں ایسے درندے ہیں جن سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہو گا۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ اس دنیا میں واقعی شیطان کا وجود ہے بھی یا نہیں یا ہم ہی ہیں کہ جنھوں نے شیطان کا روپ دھارا ہوا ہے۔ یہ ہمارے اعمال ہی ہیں جو ہمیں شیطان کے ساتھ صف میں کھڑا کرتے ہیں۔ ہمارے اعمال کو دیکھ کر شیطان کو بھی شرمندگی ہوتی ہو گی اپنے شیطان ہونے پر۔ اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے برداشت کے اس مقام پر خود کو کھڑا کرنا پڑتا ہے جہاں پر لوگوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے، جہاں لوگوں کی منفی سوچ اور باتوں کو پیروں تلے روند کر گزرنا پڑتا ہے، جہاں خوش رہنے کے لیے بہت زیادہ بے حسی کی ضرورت ہوتی ہے، ہماری روحیں اتنی میلی ہو گئیں کہ موت کو گلے لگا کر، الله تعالیٰ سے جا ملنے اور اپنے اعمال کا حساب و کتاب دے کر ہی ہماری روحوں کا میل اتر سکتا ہے۔