محمد سہیل مونس
اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ نجانے کس سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمارے صوبے اور خصوصاً پورے ملک کو قصداً ترقی کی دوڑ سے پرے رکھا جا رہا ہے۔ ہم اس فیڈریشن میں پچھلے ستر برس سے نظر انداز جبکہ پچھلے پینتالیس برس سے افغان ”فساد” کا مسلسل نشانہ بھی بنتے آ رہے ہیں۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک آج ترقی کی راہ پہ گامزن ہیں اور ہم محض منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں جس کی ایک بہت بڑی وجہ کفران نعمت بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہزارہا وسائل سے نوازا ہے لیکن ہم اس سے استفادہ اٹھانے کی ذرہ برابر بھی کوشش نہیں کرتے۔
ہم ترقی یافتہ ممالک اور ان کے اقتصادی اداروں سے مسلسل قرض لینے پہ مجبور ہیں، ہمارے محنتی اور جفاکش عوام معاشی بدحالی کی وجہ سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ اسی معاشی بدحالی کی وجہ سے ملک میں جرائم کی شرح خطرناک حد تک بڑھتی چلی جا رہی ہے جبکہ ملک چلانے والوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ایک جانب اگر عوام بےخبر ہیں تو ملک کے کرتا دھرتا کو تو علم ہے کہ ہماری مٹی میں کتنے قدرتی وسائل پڑے ہیں۔ ہم اس کی کھوج لگا کر اس سے استفادہ کیوں حاصل نہیں کر لیتے جس کی وجہ سے ہم ہر مد میں خود کفیل ہو کر غریب اقوام کی بھی مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن وہی میری بات کہ ہماری جڑوں میں انگریز باقیات نے جونک کی طرح منہ ڈالا ہوا ہے اور عوام کو مسلسل ذلالت میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ یہ ایک طرح سے کفران نعمت بھی ہے کہ آپ خزانوں کے مالک ہوں اور در بہ در بھیک مانگتے پھر رہے ہوں۔ ہاں! اگر یہ عمل قصداً کیا جا رہا ہے تو یہ پھر سراسر زیادتی ہے، نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ اس ملک کے بائیس کروڑ عوام کے ساتھ جس کا جواب بہرحال دینا ہی پڑے گا۔
ہمارے عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کسی غریب ملک کے باسی نہیں، ایک سرسری تحقیق کے مطابق صرف صوبہ خیبر پختونخوا میں 14 ٹریلین ٹن ماربل، لائم سٹون، ڈولومائٹ، سوپ سٹون اور سلکا کے ذخائر موجود ہیں۔ اسی طرح اگر ہم قدرتی گیس کی بات کریں تو لاکھوں کیوبک فٹ، تیس (30) ہزار سے زائد میگاواٹ ہائیڈرو پاور جنریشن کی صلاحیت ہم رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ستر ملین کیرٹس قیمتی پتھروں کی صلاحیت موجود ہے۔
اسی طرح بی بی ایل آئل کے ذخائر کا تخمینہ کوئی ایک اعشاریہ دس ملین بیرل کے قریب لگایا جا چکا ہے۔ اگر ہم کوئلے کی بات کریں تو ہنگو اورکزئی میں 81 ملین ٹن، چراٹ 7.74، گلا خیل 30 ملین ٹن، ابھی غیرترقی یافتہ کول فیلڈ شیرانی میں ایک ملین ٹن جبکہ درہ آدم خیل میں کوئلے کی کانوں پہ کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ ان ذخائر کا کل ملا کر تقریباً اندازاً تخمینہ 119.74 میلین ٹن بنتا ہے جبکہ لیتھیم، یورینیم ، سٹیل اور نمک کے علاوہ بیش بہاء ذخائر سے مالامال ہے۔ ہمارا خطہ جس پر رتی برابر کام نہیں ہو پا رہا، ہمارے نوجوان کو بینکس، انشورنس، سٹاک مارکیٹس اور دیگر کئی جھمیلوں میں مصروف رکھ کر یہاں سے بددل کر کے عرب ممالک کی خاک چھاننے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔ اگر اسے اپنے ذخائر کی کھوج کے لئے تیار کیا جاتا اور انجنئیرنگ کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی تو آج یہ خطہ اور اس کے عوام خوشحال اور سکھی ہوتے۔
ہم اگر صرف جنوبی و شمالی وزیرستان کے خطے کے ذخائر کی بات کریں تو یہاں 36000 ملین ٹن تانبہ موجود ہے جس کی عالمی مارکیٹ میں آج کل قیمت کوئی ساڑھے سات لاکھ ڈالر فی ٹن بنتی ہے۔ اسی طرح سن 1996 میں ایک برطانوی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق میر علی اور میران شاہ کے بیچ ایشہ نامی علاقہ ہے جہاں قدرتی گیس اور تیل کے اتنے ذخائر ہیں جو پاکستان کے لئے 40 برس تک کافی ہیں۔
اسی طرح شمالی وزیرستان میں کرومائٹ، سلور، سونا، چاندی، ماربل اور کاپر کے لاتعداد ذخائر موجود ہیں تو وانا کے علاقے پیلی کیچ میں کوئلے، سپین کمر، پریغل اور سرہ خاورہ میں کاپر اور کوئلے کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں۔
اب اگر اتنے سارے قدرتی وسائل کی موجودگی میں ہم کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں تو یہ سارے کا سارا قصور ہمارا اپنا ہے بجکہ پاکستان چلانے والوں کو بھی اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ایک ادارے کے بہت بڑے افسر کی تحقیق کے مطابق ہم صرف گلگت بلتستان کے پانی سے دو لاکھ میگاواٹ بجلی حاصل کر سکتے ہیں جبکہ سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں میں ونڈ کوریڈور سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کر سکتے ہیں مگر کرنے نہیں دیا جا رہا۔
ہماری اس وقت بجلی کی ساری کھپت 24 سے 25 سو میگاواٹ ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم پاکستان جیسے کئی ممالک کو ہزاروں میگاواٹ سستی بجلی بلکہ ماحول دوست بجلی فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ابھی ہم نے سولر پاور جنریشن کی استطاعت پہ بات نہیں کی۔
ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے میرے دل میں صرف ایک خدشہ پلتا رہتا ہے کہ انگریز نے جاتے ہوئے جن لوگوں اور اداروں کو ہم پر مسلط کر دیا تھا کیا ان دونوں کے بیچ یہ طے تو نہیں پایا تھا کہ پاکستان میں موجود ذخائر کو کسی کو ہاتھ تک نہیں لگانے دینا۔ ہم اگر دیکھیں اور غور کریں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ انگریز بہادر شائد ایک بار پھر کسی نہ کسی ایسٹ انڈیاء کمپنی کی صورت میں نمودار ہو اور ہو بھی رہا ہے، کارپوریٹ کریسی کی شکل میں اور دیگر کئی طریقوں سے وہ یہاں کے عوام کو نان اشوز میں مشغول رکھ کر یہاں کے ذخائر پر آنچ تک نہیں آنے دے رہا۔
ہمارے ہاں کبھی قبائلی مسائل کو، کبھی لسانی و گروہی مسائل کو ہوا دے کر تو کبھی اس خطے میں مسلسل جنگ کو دوام دے کر ہمیں آپس میں مشت و گریبان رکھنا چاہتے ہیں اور پھر کسی موزوں سے موقع کی تلاش میں یہاں پہنچ کر سب کچھ اچکنا چاہتے ہیں جیسے صدیوں قبل 45 کھرب ڈالرز لوٹ کر لے گئے تھے۔
ہم نے نہایت تدبر و اعلیٰ فیہم کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا، اتنی ساری نعمتوں کو بروئے کار لا کر اپنی قوم کو ذلالت اور کسمپرسی کی حالت سے نکالنا ہو گا، انگریز باقیات کی من مانی کے آگے بند باندھنا پڑے گا اور اپنے پیروں پہ کھڑا ہو کر تمام دنیا کو بتانا ہو گا۔ لیکن یہ تمام کام اتحاد و اتفاق سے ممکن ہیں۔ جوش و جذبہ اپنی جگہ لیکن علم و ہنر کے بغیر اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں سے مستفید ہونا بھی محض ایک خواب ہے کیونکہ ریکوڈک کا حال ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں جہاں اس قیمتی خزانے کو پرائے ممالک کے ہاتھوں میں تھما کر پاکستان کا بہت بڑا نقصان کیا گیا۔
ہم اپنے نوجوانوں کو ان کی پسند کے مطابق کسی بھی فیلڈ میں پڑھا سکتے ہیں لیکن جو ذخائر اور معدنیات ہمارے پاس ہیں کیا اس کی کھوج کے لئے ہم مسلسل اپنے دشمنوں کے رحم و کرم پر رہیں گے، کیا ہم اپنے بچوں کو زراعت، انجنیئرنگ، مائننگ اور دیگر لاتعداد شعبوں میں ماہر نہیں بنا سکتے، ہم کیا ساری عمر عرب ممالک کی خاک چھانتے رہیں گے؟ کوئی دن تو ہمیں ایسا بھی دیکھ لینا چاہیے کہ ہم ان کے کفیل ہوں اور وہ ہمارے ہاں کام کرنے آئیں۔
نوٹ: کالم نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔