راحت العین کا الزام درست ہے یا ضیاء اللہ بنگش کی تردید؟
رفاقت اللہ رزڑوال
کوہاٹ کی خاتون نے وزیراعلی خیبر پختونخوا کے سابق مشیر ضیاء اللہ بنگش پر الزام لگایا ہے کہ وہ ان پر جنسی تعلقات قائم نہ رکھنے کی پاداش میں پولیس سے جھوٹی ایف آئی آرز کرواتے ہیں جبکہ ضیاء اللہ بنگش نے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی مخالفین خاتون کو ان کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہچانے کیلئے استعمال کرتے ہیں حالانکہ وہ کبھی اس خاتون سے ملے بھی نہیں ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ سے تعلق رکھنے والی خاتون راحت العین نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کی حکمران جماعت، پاکستان تحریک انصاف سے کوہاٹ کے حلقہ 38 سے منتخب صوبائی اسمبلی کے رُکن ضیاء اللہ بنگش نے اُن کے خلاف دو ایف آئی آرز درج کرائی ہیں جس کی پاداش میں وہ پندرہ دن جیل بھی کاٹ چکی ہیں۔
پشاور پریس کلب میں گفتگو کے دوران راحت العین نے کہا کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں جبکہ مذکورہ ایم پی اے اُن سے زبردستی جنسی تعلقات قائم رکھنے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
راحت العین کہتی ہیں، "وہ جنسی تعلقات چاہتے ہیں اور میں جنسی تعلقات قائم رکھنا نہیں چاہتی اور نہ میں دوستی کی اہل ہوں، نہ مجھے اُس سے پیسے چاہئیں اور نہ مجھے اُس سے دوستی کرنی ہے۔”
10 جون کو سوشل میڈٰیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک خاتون ایک گھر کے اندر داخل ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ویڈیو میں دکھائی دینے والا گھر سابق مشیر ضیاء اللہ بنگش کا ہے۔
ضیاء اللہ بنگش کے خاندان کے افراد الزام لگا رہے ہیں کہ حملہ آور خاتون یہی راحت العین ہے اور اُس نے ضیاء اللہ کے گھر میں اُن کے ماں پر گرم چائے پھینک کر اُن پر تشدد بھی کیا ہے۔
ویڈیو میں پولیس اہلکار بھی دکھائی دے رہے ہیں، لیڈیز پولیس راحت العین کو پکڑتے ہوئے پولیس موبائل وین میں بٹھاتی ہیں۔
راحت کہتی ہیں کہ انہوں نے میری شکایت کو تشدد کا نام دے کر ایف آئی آر درج کر کے جولائی میں جیل میں رکھا جس میں انہوں نے پندرہ دن ایک دفعہ جیل میں گزارے اور پھر اُس کے بھائی احسن بنگش نے دوبارہ ایف ائی آر کر کے کرک جیل بھجوا دیا۔
راحت العین کے مطابق وہ شکایت کرنے کیلئے اُن کی ماں کے پاس گئیں کہ اپنے بیٹے کو منع کریں کہ وہ مجھے ہراساں نہ کرے جس پر انہوں نے میرے اوپر فائرنگ اور ماں پر تشدد کے الزام میں اندر کرایا۔
پشاور پریس کلب میں خاتون نے پریس کانفرنس میں اُن کے ساتھ ماضی میں ہونے والے واقعات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پہلے وہ ریڈیو پاکستان کوہاٹ میں بطور میزبان کام کرتی تھیں، جہاں پر رُکن صوبائی اسمبلی ضیاء اللہ بنگش کا آنا جانا جاری تھا۔ اس دوران ریڈیو پروڈیوسر نے انہیں ضیاءاللہ بنگش سے تعلق قائم کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی مگر میں نے انکار کیا جس کی وجہ سے مجھے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اُن کا کہنا ہے "ضیاء ایک ٹیکسی ڈرائیور تھا اور لڑکیوں کا شوقین ہے، ضیاء گینگ کے ذریعے دیگر خواتین کو بھی ہراساں کرتا ہے لیکن کوئی ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا کیونکہ کوہاٹ پولیس بھی ضیاء اللہ بنگش سے ملی ہوئی ہے۔”
ذرائع کے مطابق خاتون راحت العین پہلے ہی سے دو شادیاں کر چکی ہیں، پہلے شوہر نے اُن پر مبینہ طور پر ناجائز تعلقات کا الزام لگا کر طلاق دی، راحت العین کہتی ہیں کہ ضیاء اللہ بنگش کی وجہ سے اُن کا پہلا گھر برباد ہو چکا ہے اور اب وہ میری دوسری شادی بھی برباد کرنا چاہتا ہے۔
ضیاء اللہ بنگش کا راحت العین کے الزامات پر ردعمل
رُکن صوبائی اسمبلی ضیاء اللہ بنگش کے دفتر سے جاری پریس ریلیز میں خاتون کے تمام الزمات کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خاتون کا دماغی توازن ٹھیک نہیں اور سیاسی مخالفین اُن کے ذریعے میری سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس خاتون کے خلاف ضیاء اللہ بنگش کی وکلاء ٹیم نے عدالت میں ہتک عزت کا دعوی دائر کر چکے ہیں اور خاتون کے خلاف کیس مقامی عدالت میں چل رہا ہے۔
ترجمان ضیاء اللہ بنگش کے مطابق راحت العین نامی خاتون کی جانب سے تمام الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں، اس خاتون سے کبھی رابطہ ہوا ہے اور نہ ملاقات، میڈیا کے دوست خاتون سے الزامات کے ثبوت مانگیں۔
ضیاء اللہ بنگش نے سیاسی مخالفین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاتون کو استعمال کر کے سیاسی رہنماؤں کی کردار کشی پختون روایات کے منافی ہے لیکن بنگش نے یہ نہیں بتایا کہ اُن کے مخالفین کون ہیں؟
بنگش نے الزام لگایا کہ راحت العین نامی خاتون کو 2018 الیکشن کمپین میں بھی لانچ کیا گیا تھا تاکہ انہیں سیاسی طور پر نقصان پہنچے مگر یہ وہ لوگ ہیں جو سیاسی میدان میں ضیاء اللہ بنگش کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
جنسی ہراسانی کے واقعات کی شفاف تحقیقات کیسے کی جائیں گی؟
کام کی جگہ پر خواتین ہراسانی سے بچنے کیلئے 2010 میں ایک قانون منظور ہوا تھا جسے ‘کام کی جگہ پر خواتین کو تحفظ کا قانون خیبر پختونخوا 2010 کہا جاتا ہے۔ قانون کے مطابق متاثرہ خاتون صوبائی محتسب کو ایک درخواست کی شکل میں شکایت رجسٹرڈ کر سکتی ہے۔
قانون میں جرم ثابت ہونے پر مجرم کی نوکری سے برخاستگی، قید اور جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے لیکن صوبائی محتسب کے فیصلے اکثر عدالتوں میں چیلنج کئے جاتے تھے جہاں پر مبینہ ملزم کو ریلیف مل جاتی تھی۔
جنوری 2020 میں خیبر پختونخوا حکومت نے مذکورہ قانون میں ترمیم کی جس میں صوبائی محتسب کو مکمل اختیارات دیئے گئے اور قانون کے تحت محتسب کے فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
صوبائی محتسب رخشندہ ناز کے مطابق جنوری 2019 سے جنوری 2020 تک صوبے کے مختلف سرکاری اداروں سے 59 کیسسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں 29 واقعات جنسی ہراسانی کے ہیں۔
رخشندہ کہتی ہیں کہ قانون میں ترمیم سے پہلے ایک خاتون نے کیس واپس لے لیا جبکہ دو کیسز عدالت میں درخواست سے معطل ہوئے۔
قانون کے مطابق تمام سرکاری و غیرسرکاری اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعے کی شفاف تحقیقات کیلئے ایک کمیٹی بنائی جائے گی جس میں ایک خاتون سمیت تین ارکان شامل ہوں گے۔